حکومت کا پہلا سال۔ بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ سرکاری سروے میں انکشاف

Sep 17, 2021 | 21:12:PM

 (24نیوز)پاکستان شماریات بیورو (پی بی ایس) کی جانب سے شائع کردہ لیبر فورس سروے (ایل ایف ایس) کے نتائج کے مطابق ملک میں 18-2017 کے دوران بے روزگاری کی شرح 5.8 فیصد تھی جو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے پہلے سال 19-2018 میں بڑھ کر 6.9 فیصد پر جاپہنچی تھی۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق مالی سال 2019 میں نوکریاں تلاش کرنے والوں کی تعداد میں 9 لاکھ 20 ہزار افراد کا اضافہ ہوا اور یہ تعداد اس سے گزشتہ سال 37 لاکھ 90 ہزار کے مقابلے میں بڑھ کر 47 لاکھ 10 ہزار ہوگئی یعنی اس عرصے میں ملک کی مجموعی افرادی قوت 6 کروڑ 55 لاکھ سے بڑھ کر 6 کروڑ 87 لاکھ 30 ہزار ہوگئی۔اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ 30 لاکھ 23 ہزار افراد نوکری کی تلاش میں مارکیٹ میں اس وقت داخل ہوئے جب قومی معیشت کی نئی نوکریاں پیدا کرنے کی صلاحیت سکڑنا شروع ہوگئی تھی اور ابھرتے ہوئے معاشی عدم توازن کی وجہ سے کاروباری اداروں نے اپنے ملازمین کو نوکریوں سے نکالنا شروع کردیا۔
بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح نے مرد و خواتین دونوں ہی کو متاثر کیا، مرد حضرات میں بے روزگاری کی شرح 5.1 فیصد سے بڑھ کر 5.9 فیصد ہوگئی جبکہ خواتین میں بے روزگاری کی شرح 8.3 فیصد سے بڑھ کر 10 فیصد ہوگئی۔سروے کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہری علاقوں میں بے روزگاری کی شرح 7.9 فیصد تک بڑھی ہے جو ایک سال قبل 7.2 فیصد تھی تاہم بے روزگاری میں دیہی علاقوں میں زیادہ اضافہ دیکھا گیا جہاں یہ شرح 5 فیصد سے بڑھ کر 6.4 فیصد تک جاپہنچی، دیہی علاقوں میں خواتین میں بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوا اور زیر جائزہ عرصے میں 5.9 فیصد سے بڑھ کر 8.5 فیصد ہوگئی،اگر اس کا دیہی علاقوں میں مردوں کی بے روزگاری سے موازنہ کیا جائے تو وہ ان دو سالوں میں 5.5 فیصد اور 4.7 فیصد تھی۔اس عرصے میں مزدوروں کی شراکت داری کی شرح 44.8 فیصد رہی یعنی ان کی مجموعی تعداد 6 کروڑ 87 لاکھ 73 ہزار ہے جس میں مرد و خواتین دونوں ہی شامل ہیں۔ملک میں 15 کروڑ 35 لاکھ آبادی ملازمت کی عمر میں ہے جن میں 7 کروڑ 74 لاکھ مرد اور 7 کروڑ 61 لاکھ خواتین شامل ہیں، ملازمت کی عمر رکھنے والی 9 کروڑ 41 لاکھ افراد کی اکثریت دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے جبکہ 5 کروڑ 93 لاکھ کا تعلق شہری علاقوں سے ہے۔مالی سال 2019 میں برسر روزگار مردوں کی تعداد بڑھ کر 4 کروڑ 93 لاکھ ہوگئی جن میں سے 27.3 فیصد رسمی شعبہ جات میں کام کر رہے ہیں جبکہ دیگر غیر رسمی شعبے سے وابسطہ تھے جن کی تعداد گزشتہ مالی سال 4 کروڑ 82 لاکھ تھی۔اسی طرح خواتین ملازمین کی تعداد بھی ایک کروڑ 35 لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ 47 لاکھ تک پہنچ گئی جن میں سے 29.5 فیصد رسمی شعبے میں کام کر رہی تھیں۔معیشت میں زراعت کا حصہ 5 فیصد سے بھی کم ہونے کے باوجود یہ روزگار کے حوالے سے سب سے بڑا شعبہ رہا جس نے گزشتہ سال 38.5 فیصد کے مقابلے میں 39.2 فیصد افرادی قوت کو جزب کیا۔اسی طرح سروس سیکٹر نے معمولی فرق سے 37.8 فیصد جبکہ مینوفیکچرنگ شعبے نے 23.7 فیصد سے کم ہو کر 23 فیصد افرادی قوت کو روزگار مہیا کیا، ملکی معیشت میں خدمات کا شعبہ 60 فیصد سے زائد جبکہ مینوفیکچرنگ تقریباً 20 فیصد حصہ ڈال رہا ہے۔
سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ غیر رسمی شعبہ جات 72.4 فیصد غیر زرعی ملازمتیں فراہم کر رہا ہے، جن میں دیہی علاقوں میں 76.7 فیصد اور شہری علاقوں میں 68.1 فیصد ملازمتیں شامل ہیں۔رسمی شعبہ جات کی سرگرمیاں زیادہ تر شہری علاقوں میں پائی گئیں جو دیہی علاقوں کے 23.3 فیصد کے مقابلے شہری علاقوں میں 31.9 فیصد ہیں۔شہری رسمی شعبے میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کا حصہ 39.5 فیصد ، دیہی میں غیر رسمی شعبے میں 78.6 فیصد رہا، دیہی رسمی شعبے میں مردوں کا حصہ 23.6 فیصد اور شہری غیر رسمی شعبے میں 69 فیصد ہے۔سروے میں مختلف شعبوں میں روزگار کی شرح میں تبدیلی کی نشاندہی کی گئی اور زراعت، جنگلات، ماہی گیری اور برادری/ سماجی اور ذاتی خدمات میں اضافہ دیکھا گیاتاہم مینوفیکچرنگ، ہول سیل اور ریٹیل تجارت میں نوکریوں میں کمی آئی، 39.8 فیصد افرادی قوت کو ملازمین کی قسم میں شامل کیا گیا، 35.8 فیصد افراد ذاتی کاروبار میں بطور ملازم کام کر رہے ہیں، 22.9 فیصد خاندانی کاروبار میں معاونت کر رہے ہیں جبکہ 1.5 آجر ہیں۔نصف سے زائد خواتین یا 56.9 فیصد خاندانی کاروبار میں معاونت کر رہی ہیں، 10 میں سے 8 سے زائد مرد کے اپنے کاروبار ہیں جن کی شرح 40.2 فیصد بنتی ہے جبکہ 45.1 فیصد ملازم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں۔’ارے واہ علیزے تم کتنی اچھی لگ رہی ہو۔‘سلمان کا تبصرہ

مزیدخبریں