میرا دوست اویس جمشید بھولے بھالے انداز میں ایسی بات کہتا ہے جو کوئی شاطر کتابوں میں بھی نہیں کہہ سکتا،ایک بار بیٹھے بیٹھے کہا کہیں ہم بنی اسرائیل تو نہیں بن جائیں گے؟میں نے کہا کیوں تو بولا ، کہ ہم پر بھی من و سلویٰ اترتا ہے بنی اسرائیل پر بھی اترتا تھا لیکن وہ شکر گزار نا ہوئے،کچھ ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہے ، میں نے کہا ہم پر کب من و سلویٰ اترتا ہے؟ تو بولا حاجی صاحب (میرا دفتری نام ) آپ جو چاہیں کیا کھا نہیں سکتے،آپ کیا مصر کی گھاٹیوں میں بھٹکائے گئے ہیں رہن سہن میں کون کون سی سہولیات ہیں ؟ میں نے کہا ہر سہولت موجود ہے ماشااللہ، گھر ہے ، گاڑی ہے ، اولاد ہے ، فریج ہے ، اے سی ہے ، ٹی وی ہے، مہنگے سے مہنگا کھانا کھا سکتا ہوں ،مٹن کہوں تو مٹن،دیسی مرغا کہوں تو دیسی مرغ ، تیتر بٹیر ، بریانی ، نہاری ، کباب ، آئسکریم ، پھل انواع و اقسام ، اچھے سے اچھا کپڑا پہن سکتا ہوں ، سردیاں آئیں گی تو ڈرائی فروٹ بھی خریدوں گا،اللہ نے مجھے بہت نواز رکھا ہے ۔
میری تقریر نما بات سن کر اُس نے کہا بنی اسرائیل کے پاس تو ایسا کچھ نا تھاایک جیسا کھانا اترتا تھا جس پر ایک بار انہوں نے کہا کہ بدل دیں تو ناشکرے ٹھرے اور آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس سب کچھ ہے جو جو نعمتیں آپ نے گنوائی ہیں شاید اس سے بھی ذیادہ لیکن سب اپنے حال،اپنے مستقبل سے شاکی ہیں ایسے تو بنی اسرائیل بھی نا تھے، موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر انہوں نے وطن چھوڑا، فرعون کے خلاف علم بغاوت بلند کیا لیکن اللہ کی دی گئی نعمتوں کے ناشکرے ہوئے اورراندہ درگاہ ہوگئے قیامت تک ، ہم بھی ناشکرے نہیں ہیں جس کے پاس جتنی ذیادہ دولت ہے وہ اتنا ناشکرا ہے،وہ پاکستان میں اپنے مستقبل سے ہی شاکی ہے،بچے،سرمایہ باہر بجھوا رہا ہے کہ یہاں کچھ نہیں ہے لیکن ایسے حالات میں آج بھی ایسے لوگ ہمارے ارد گرد ہیں جو کم پر بھی اللہ کے شکر گزار ہیں،گھر جو کام والی آتی ہے،مسجد میں جو امام صاحب ہیں ، گھر آنے والا مالی ، ڈرائیور بہت کم نا شکرے دیکھیں گے جو دیں گے شکر گزار ہوکر کھالیں گے کوئی نخرہ نہیں کریں گے لیکن ہم من و سلویٰ کے ہوتے ہوئے بھی ناشکرے بنے ہوئے ہیں ، کیا ہم واقعی بنی اسرائیل تو نہیں بن رہے ۔
میں آج عید میلادالنبیﷺ پر سوچ رہا ہوں ہم تو اللہ کے خاص کرم نبی مکرم رحمت العالمینﷺ کی دنیا میں آمد و سعادت کو بھی نہیں سمجھ سکے،ہم تو ابھی اس بات میں الجھے بیٹھے ہیں کہ آپ سرکارﷺ نور تھے یا بشر ،ابھی کل ہی ایک دوست نے یہ قصہ چھیڑ دیا تو میں نے سمجھایاکہ بھائی آپ سرکارﷺ تو سراپا نور تھے ،دلیل مانگی تو کہا کہ بھائی سفرِ معراج کا واقعہ سورہ بنی اسرائیل میں ہے جس میں اللہ پاک فرماتا ہے کہ (مفہوم) پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی، بتائیں یہ سب روشنی کی سپیڈ سے یا اُس سے بھی ذیادہ کسی اور روشنی جسے ہم نور کہتے ہیں سے ممکن ہے کیا انسانی جسم اس رفتار سے سفر کرسکتا ہے ؟ انسان نے ابھی تک کتنی سپیڈ پر سفر کیا ہے اس سے ذیادہ میں گیا تو اس کے چیتھڑے ہوا میں اڑ جائیں گے ، بات یہاں ہی بس نہیں ہوتی جہاں جبرائیل علیہ السلام کی حد مقرر تھی وہ وہاں تک گئے اور نبی پاکﷺ وہاں تک گئے جہاں اللہ پاک سے آمنا سامنا ہوا لیکن ہم ابھی بھی اسی بحث میں الجھے ہوئے کہ آپ نور تھے یا بشر حیرت ہے ، دوست بولا تو پھر قرآن میں کیوں کہا گیا کہ (مفہوم) کہ آپﷺ ان بندوں سے کہہ دیجئیے کہ میں بھی تمہاری طرح کا بندہ ہوں، میں نے کہا کہ ابھی بتایا ہے کہ آپ معراج کا واقعہ پڑھیں نہیں تو داکٹر اسرار احمد کے منہ سے سن لیں نیٹ پر موجود ہے، کیا کوئی انسان وہ بھی ہماری تمہاری طرح ایسا کرسکتا ہے، کیا آپ کو شق صدر کا واقعہ کا علم ہے جس میں نبی اکرمﷺ کا سینہ مبارک اور دل مبارک آب زم زم سے دھویا گیا اور یہ چار مرتبہ ہوا،چار سال کی عمر مبارک ﷺ میں دس سال کی عمر مبارک میں نبوت کے اعلان سے پہلے اور پھر سفرِ معراج سے قبل آب زم زم کے کنوئیں کے ساتھ سینہ چاک ہوا اور دھویا گیا کیا یہ ہمارے ساتھ ممکن ہے کہ نشان بھی نا رہے ، ہم اس بھول میں ہیں کہ ہم انسان اشرف المخلوقات ہم ہیں ،ہم نہیں ہیں قرآن پاک میں سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ پاک فرماتا ہے
ترجمہ :
یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ۔
یعنی تمام مخلوقات پر نہیں جملہ مخلوقات پر تو رحمتہ العالمینﷺ کو فضیلت دی جن کے دیدار کو اللہ پاک نے سرعرش بلایا،خالص محبوب ﷺ کی جسمانی حالت میں اپنا دیدار کرایا،سدرۃ المنتہیٰ تک بلایا جہاں تک کوئی اور مخلوق کبھی نا گئی اور شاید نا کبھی جائے گی ، ان سب باتوں کو جانتے سمجھتے ہم خود کو اشرف المخلوقات سمجھ کربنی اسرائیل تو بنے ہوئے ہیں فرعون بننے کی کوشش میں ہیں، دوست نے پھر لقمہ دیا کہ عید میلاد النبیﷺ منانا ضروری ہے تو میں نے کہا بھائی فرض صرف اللہ کی عبادتیں ہیں نماز ، روزہ ، زکوۃ ، حج عشق کی منزلیں فرض نہیں ہوتیں یہ جو طے کرنا چاہے طے کرتا ہے، اللہ پاک نے آدم علیہ السلام کی تخلیق کا جشن منایا تو جملہ جن و فرشتہ کو سجدہ کرنے کا کہا،یہ بھی ایک طریقہ تھا جشن کا ،عزازیل نے نہیں منایا تو ابلیس بن گیا ، نبی اکرمﷺ مدینہ آئے تو بچیوں نے دف بجا کر اور گھروں پر چراغاں کر کے جشن منایا تو کیا کوئی بدعت سرزد ہوئی، جو عاشق ہیں وہ محبوب کی آمد کا جشن مناتے ہیں انداز اپنا اپنا ہے کوئی چراغاں کرتا ہے کوئی نعت پڑھتا ہے کوئی لنگر تقسیم کراتا ہے،سب اللہ پاک کے محبوب کی دنیا میں آمد کا جشن مناتے ہیں کسی کو کیا کہتے ہیں ؟ اللہ پاک آج کے دن کے صدقے ہم سب کے ایمان کو محفوظ فرمائیں تا قیامت آمین ثم آمین۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر