(24نیوز) چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ 10 سے 15 ہزار لوگ جمع کر کے عدالتی فیصلے پر تنقید کریں تو ہم کیوں فیصلے دیں،عدالت اپنا آئینی کام سر انجام دیتی ہے، قومی لیڈروں کو عدالتی فیصلوں کا دفاع کرنا چاہیے، آئینی تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں لیکن اپنا کام کرتے رہیں گے، عدالت کیوں آپ کے سیاسی معاملات میں پڑے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ ایڈشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے درخواست کی کہ نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی کا انتظار کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہوگئے تھے، میرے خیال میں ہمیں صدارتی ریفرنس کو چلانا چاہیے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے دلائل دیئے کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہوتا ہے، پیسے دیکر ضمیر نہیں بیچا جاسکتا ، پیسے دیکر تو ارکان اسمبلی سے ملک مخالف قانون سازی کرائی جاسکتی ہے، پنجاب میں جو حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہے، تمام اسٹیک ہولڈر عدالت کی جانب دیکھ رہے ہیں، اب تو منحرف اراکین عوام میں بھی نہیں جاسکتے، سینیٹ الیکشن کے بعد بھی ووٹ فروخت ہورہے ہیں۔
رات بارہ بجے عدالتیں کھولنے کے حوالے سےچیف جسٹس نے کہا کہ سوشل پر جو چل رہا ہے ہمیں اسکی پرواہ نہیں،آئین کے محافظ ہیں، یہ 24 گھنٹے کام کرنے والی عدالت ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں انحراف کی اجازت ہو کچھ چاہتے ہیں نہ ہو؟ آج کل آسان طریقہ ہے ،دس ہزار بندے جمع کرو کہو میں نہیں مانتا، پارلیمان نے تاحیات نااہلی کا واضح نہیں لکھا، پارلیمنٹ نے یہ جان بوجھ کر نہیں لکھا یا غلطی سے نہیں لکھا گیا، پارلیمنٹ موجود ہے دوبارہ اس کے سامنے معاملہ پیش کردیں، عدالت کے سر پر کیوں ڈالا جارہا ہے، پارلیمنٹ کو خود ترمیم کرنے دیں۔
یہ بھی پڑھیں: بزدار کی دوست مزاری سے ملاقات۔اہم بات سامنے آ گئی
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو چار صورتوں میں آرٹیکل 63 میں تحفظ دیا گیا ہے، ضیاء الحق نے پارٹی سے انحراف پر پابندی کی شق آئین سے نکال دی تھی ، 2010 میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا ، آئین کی خلاف ورزی چھوٹی بات نہیں ہے، کئی لوگ آئین کی خلاف ورزی پر آرٹیکل چھ پر چلے جاتے ہیں، آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی آرٹیکل 6 کا کیس نہیں بنتا، عدالت تعین کرے گی کہ آئین سے انحراف کا کیا نتیجہ ہوگا ، آئین کی خلاف ورزی کرنے والا یا اپنی خوشی پر جائے گا یا قیمت ادا کرنی ہوگی۔
جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ کیا عدالت اپنی طرف سے تاحیات نااہلی شامل کر سکتی ہے؟َ۔ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح میں عدالت تاحیات نااہلی قرار دے چکی ہے۔