(ویب ڈیسک) اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پرلانا عرب اسرائیل تنازع کے خاتمے کی کلید ہے اور یہ اس تنازع کے خاتمے کی جانب ایک ’بڑی چھلانگ‘ کے طور پر کام کرے گا۔
انھوں نے یہ بات مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں امریکا کے ری پبلکن سینیٹر لنڈسے گراہم کے ساتھ ملاقات میں کہی ہے۔
انھوں نے کہا ’ہم سعودی عرب کے ساتھ معمول کے تعلقات اورامن چاہتے ہیں۔ ہم اسے عرب اسرائیل تنازع کے خاتمے کی جانب ایک بڑی چھلانگ کے طور پر دیکھتے ہیں‘۔
انھوں نے اس خوش امیدی کا اظہارکیا ہے کہ ’ایسے کسی معاہدے کے اسرائیل، سعودی عرب، خطے اور دنیا دونوں کیلئے تاریخی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں‘۔
اسرائیل نے متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنے کیلئے امریکا کی سرپرستی میں ابراہام معاہدے پر دست خط کیے تھے۔ اب اسرائیل اس اقدام کو مزید ممالک تک توسیع دینے کی کوشش کررہا ہے۔ اسرائیل کے اعلیٰ حکام بارہا اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا قیام حتمی کامیابی ہوگی اور خطے میں امن کے قیام کیلئے اہم ثابت ہوگی۔
دوسری جانب سعودی عرب کئی مرتبہ اپنے اس مؤقف کا اعادہ کرچکا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پرلانے کیلئے کسی بھی قسم کا امن معاہدہ یا سمجھوتا ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے پیشگی شرط ہوگا۔
اسرائیلی عہدے داروں نے ایران اور خطے کیلئے اس کے خطرات بشمول اس کے جوہری پروگرام، بیلسٹک میزائلوں کے ذخیرے اور یمن، لبنان، عراق اور شام جیسے ممالک میں اپنی آلہ کار ملیشیاؤں کو اسلحہ مہیا کرنے اور ان کی مالی معاونت کے ذریعے مداخلت کو عرب ممالک کا مشترکہ دشمن قرار دیا ہے۔
تل ابیب نے گذشتہ ماہ چین کی ثالثی میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کوایک دھچکے کے طور پردیکھا تھا۔
دریں اثناء اسرائیل کی وزارت خارجہ نے چین سے کہا ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیارحاصل کرنے سے روکنے کیلئے اس پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے ایک بیان میں کہا کہ ’میں نے چین کے وزیرخارجہ چن گینگ سے ایران کے جوہری پروگرام سے لاحق خطرے کے بارے میں بات کی ہے، یہ ایک ایسا خطرہ ہے جس پرخطے کے بہت سے ممالک کومشترکہ طورپر تشویش لاحق ہے۔ ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جن کے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار ہیں‘۔