(ویب ڈیسک) حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں اضافے اور صحت عامہ اور محصولات پیدا کرنے کے دوہرے چیلنج سے نمٹنے کے جرات مندانہ فیصلے کے بعد پاکستان میں سیگریٹ کی کھپت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق چند ماہ قبل تعلیمی محققین اور پیشہ ور افراد کے نیٹ ورک کیپٹل کالنگ کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق درست ثابت ہوئی ہے۔ اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر 94 میں سے ایک تمباکو نوش ی کرنے والے نے قیمتوں میں اضافے کے بعد تمباکو نوشی ترک کر دی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کا ٹیکسوں میں اضافے کا فیصلہ صحت عامہ کے خدشات اور محصولات کے خسارے دونوں کو دور کرنے کے لیے ایک اہم حکمت عملی کے طور پر سامنے آیا ہے۔تمباکو کے خلاف اور سماجی کارکنوں کی مسلسل لابنگ کی کوششوں کے بعد حکومت بالآخر ٹیکسوں میں اضافے پر راضی ہوگئی تھی۔
واضح رہے کہ ایف بی آر نے ٹائر ون سگریٹ پر ڈیوٹی 130 روپے سے بڑھا کر 330 روپے کردی تھی جس کے نتیجے میں 154 فیصد کا نمایاں اضافہ ہوا تھا۔اس فیصلے کا مقصد رواں مالی سال میں محصولات کو 148 ارب روپے سے بڑھا کر 200 ارب روپے کرنا تھا۔
اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور اور پشاور سمیت بڑے شہروں میں کیے گئے سروے میں شامل تمباکو نوشی کرنے والوں کی آوازیں ایک عام احساس کی بازگشت دیتی ہیں کہ سگریٹ خریدنا مالی طور پر بوجھ بن گیا ہے، جس کی وجہ سے وہ خوراک اور اپنے بچوں کی تعلیم جیسی ضروری ضروریات پر خرچ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سروے کے نتائج نے زیادہ ٹیکسوں کے حق میں ایک مضبوط ثبوت پیش کیا - تمباکو کی صنعت کینسر، سانس کی دائمی بیماریوں اور دل کی بیماریوں سمیت بیماریوں کی مد میں سالانہ تقریبا 620 بلین روپے کا حیران کن نقصان پہنچا رہی ہے، اس کے علاوہ ہر سال 337،500 اموات ہو رہی ہیں.
گزشتہ سات سالوں میں کم ٹیکسوں کے لئے لابنگ کرنے والی سگریٹ کمپنیوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پاکستان کو ممکنہ آمدنی میں 567 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
صحت عامہ اور محصولات سمیت مختلف محاذوں پر نقصانات کے باوجود وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا زیادہ ٹیکسوں کے نفاذ میں رکاوٹ رہا ہے۔ملٹی نیشنل ٹوبیکو کمپنیوں نے پاکستانی مارکیٹ میں غیر قانونی اور غیر قانونی سگریٹوں کے پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا حصہ 40 فیصد کے قریب ہے۔
تاہم زمینی سروے اور انٹرویوز نے ان دعووں کی تردید کی اور انکشاف کیا کہ غیر قانونی اور غیر قانونی سگریٹوں کا اصل حصہ 18 فیصد سے زیادہ نہیں تھا۔ اس اعداد و شمار میں بہت ہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اسمگل شدہ برانڈز بھی شامل تھے جنہوں نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اگر حکومت تمباکو کے شعبے پر ایف ای ڈی میں مزید اضافہ کرتی ہے تو آنے والے مہینوں میں پاکستان بھر میں سگریٹ کی فروخت میں مزید کمی آئے گی۔