نواز شریف صاحب اس ملک سے بھاگ جائیں جتنی جلدی بھاگ سکتے ہیں بھاگیں پوری قوت سے دوڑیں،آپ جاسکتے ہیں اور بیرون ملک رہ بھی سکتے ہیں، آپ نے سورۃ یوسف اور سورۃ بقرہ ترجمے تفسیر کے ساتھ پڑھی ہے،اس لیے بھاگ جائیں ,مسئلہ تو ہم جیسوں کا ہے جنہیں پاکستان کے باہر کوئی جائے پناہ نہیں ہے ، میاں نواز شریف صاحب ملک سے چلے جائیں،اس سے پہلے کہ یہاں کا کسان اقبال کے اس شعر کی عملی تعبیر بن جائے ؎
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشہِ گندم کو جلادو
جناب تین دفعہ کے وزیر اعظم صاحب آپ یہاں سے چلے جائیں اس سے پہلے کہ یہاں کا کسان مزدور ، محنت کش جالب کی زبان میں پکار اٹھے؎
وہ جو سائے میں مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
بس آپ چلے جائیں اس سے بیشتر کے بھوک افلاس کے مارے عوام فیض کے ان اشعار کا مطلب سمجھ جائیں
اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
خدارا آپ چلے جائیں کہ اس ملک خداداد پاکستان کے عوام کا جینا بھی دوبھر ہوگیا ہے، آپ کی صاحبزادی مریم نواز مصلحت کے سائے میں فیصلے کررہی ہیں، مرغی مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے جیسی حالیہ مثال میری اس بات کا ثبوت ہے اس سے بھی زیادہ ہولناک صورتحال گندم کی ہے ، لاکھوں کسان اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کہاں چلے جائیں،صرف ایک واقعہ نے مجھے یہ سب لکھنے پر مجبور کیا ہے کہ آپ یہاں نا رہیں جو عزت آپ نے کمائی ہے جلد ختم ہوجائے گی ۔
ضرورپڑھیں:آرمی چیف پر الزام تراشی ، بانی پی ٹی آئی کی نئی شطرنج
میں پاکپتن کی غلہ منڈی کا سچا واقعہ بتا رہا ہوں بیوپاری منتوں ، مرادوں اور محنتوں کا ثمر گندم کی شکل میں ٹرالر بھر منڈی آیا ، یہ ٹرالر دریائے ستلج کے ساتھ کے گاؤں امبر ماڑی والا سے آیا تھا،چشم تصور میں مجھے یہ کسان دیکھ کر خیال آیا کہ دو ماہ پہلے یہ کسان اپنی بیوی بچوں کے ساتھ اللہ کی زمین میں سے اپنی نگرانی میں دی گئی زمین کے کنارے کھڑا ہوگا ، کھیت کھلیانوں میں گندم کے پودوں نے بالیاں نکالنا شروع کی ہوں گی پھرسردی میں اس فصل کی آبیاری کے لیے اُس نے اور اُس کے خاندان والوں نے جاگراتا کاٹا ہے دسمبر میں اُس نے بیوی کی ٹومباں (کان کی بالیاں یا چھوٹا زیور ) بیچ کر کالے بازار (بلیک) میں کھاد خریدی ہوگی ، اُس نے سینہ پھلا کر اپنی بیوی سے کہا ہوگا" بھلیے لوکے ٹومباں دا دکھ نا کر زمین میں سونا دفن ہے نکلے گا تو تیرا قرض تو کیا سود بھی دے دوں گا،بڑی بیٹی کا زیور بن جائے گا اور ایک بھینس مزید لے لوں گا آمدن بڑھے گی تو خوشحالی آئے گی،سارے درد دور ہوجائیں گے ، جتنی مہنگائی بڑھی ہے اُس حساب سے ہماری فصل کا ریٹ 5000 سے بھی اوپر جائے گا ۔
بات یہیں ختم نہ ہوئی ہوگی گاؤں کے چوپال میں بیٹھ کر اُس نے نئی بننے والی حکومت کے گُن گائے ہوں گے ،اُس نے ادویات کے لیے اچھے کی امید پر ادھار رقم لیکر سپرے کیا ہوگا۔ اسے بڑی امید تھی کہ مسلم لیگ ن کے منشور میں کسان دوستی کے جو دعوے ہیں وہ سچ ہیں ، اسے اس بات کا بھی یقین تھا کہ گئے سال کے ریٹ 3900روپے من سے تو ریٹ زیادہ ہی ہوگا کیونکہ پچھلے سال ڈی اے پی کی بوری 8500 کی تھی اس اس سال کسان نے کہیں 16000 اور کہیں 17000 ہزار میں خرید کی گئی ، یوریا کی قیمتیں بھی بڑھیں یہ 1800 سے چھلانگ لگا کر 6000 روپے تک پہنچیں وہ بھی بلیک میں نائٹرو فاس جو ایک سال پہلے 3500 کی تھی اس سیزن میں 9000 روپے میں ملی ڈیزل نے 200 سے 300 روپے تک جمپ لگایا بجلی کے یونٹس کی قیمتوں میں دو گنا سے بھی ذیادہ اضافہ ہوا۔
یہ بھی پڑھیں:مریم نواز میرے 4 روپے واپس کرو
گندم کی کٹائی اور گہائی جو ہارویسٹرسے ہوتی ہے اس کا معاوضہ 5 ہزار سے بڑھ کر دس ہزار ہوگیا ، لیکن آج جب وہ اپنی ہیرے جیسے دانوں والی گندم لیکر منڈی آیا تو ریٹ ملا 2600 روپے۔ جی ہاں جس گندم پر اس کے 3500 روپے من کا خرچہ آیا وہ مڈل مین 2600 روپے میں خرید رہے ہیں مجھ سے اس کسان کی مایوسی دیکھی نا گئی جو ٹرالر کا کرایہ بھی لگا کر منڈی آیا لیکن محنت کی قیمت نا ملی ، سرکاری ایپ جو دی گئی جس کے تحت صرف 90 من گندم خریدی جائے گا وہ بھی نہیں چلی ،اُس نے زبان سے کچھ نا کہا بس نظریں آسمان کی جانب اٹھا دیں ۔
جناب نواز شریف صاحب میں ڈر گیا ہوں اُس کسان اور رب کے درمیان اب کوئی پردہ حائل نہیں ہے آج ہم جس کسان کی تذلیل کر رہے ہیں وہ اللہ پاک کے نظام قدرت کا اہم مہرہ ہے وہ اناج اگانے والا ہے، وہ اناج جس کا ذکر سورۃ یوسف میں اللہ پاک نے قحط کے ذکر کےساتھ کیا ہے یقناً اللہ پاک کی کتاب میں نشانیاں ہیں جب ظلم و نا انصافی بڑھتی ہے تو قوموں پر قحط نازل کر دیا جاتا مجھے ڈر ہے کہ جو نا انصافی پنجاب کے کسان سے کی جارہی ہے، یہ قحط کی پکار ہے اس لیے مشورہ ہے آپ یہاں سے چلے جائیں ہم کہیں جا نہیں سکتے کہ ہم قوم موسیٰؑ کی طرح مزید چالیس سال اس وادی میں بھٹکیں گے زندہ رہے تو شائد اچھے حالات دیکھ لیں گے کہ موسیٰؑ کی قوم نے من و سلویٰ کا انکار کیا تھا اور ہم نے گندم کی فراوانی کا قدرت کا قانون آج بھی سورۃ یوسف اور سورۃ بقرہ والا ہے۔
نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر