آرمی چیف کے عہدے کی دوڑ میں شامل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک)موجودہ حکومت کے لیے وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے دور کے سب سے مشکل فیصلے کی طرف بڑھے۔ یہ فیصلہ اگلے آرمی چیف کی تقرری کے متعلق ہوگا۔
روایتی طور پر جی ایچ کیو چار سے پانچ سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز کی فہرست، ان کی ذاتی فائلوں کے ساتھ وزارت دفاع کو بھیجتا ہے، جو انہیں وزیرِاعظم کے پاس بھیجتی ہے تاکہ وہ جس افسر کو اس عہدے کے لیے موزوں تصور کریں اسے منتخب کریں۔ قانونی طور پر وزارت دفاع، وزیراعظم کو نام پیش کرنے سے قبل ناموں کی جانچ کرسکتی ہے۔
اس کے بعد ان جنرلز کی قابلیت پر وزیراعظم کے دفتر یا کابینہ میں غور کیا جاتا ہے، اس کے بعد اس معاملے میں وزیراعظم سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کے ساتھ غیر رسمی مشاورت کرتے ہیں، ان کے اپنے تاثرات بھی اہمیت رکھتے ہیں اور وہ اپنے قریبی مشیروں سے بھی اس حوالے سے بات چیت کرتے ہیں۔
موجودہ حالات میں جن جنرلز کا نام اگلے چیف آف آرمی سٹاف کی سنیارٹی لسٹ میں آتا ہے ان میں سے ایک لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے ہے۔ اس وقت آرمی چیف کے امیدواروں میں سے سب سے زیادہ تذکرہ انہی کا کیا جارہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ایک عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ بحیثیت بریگیڈیئر، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے 10 کور میں جنرل باجوہ کے چیف آف اسٹاف کے فرائض انجام دیے تھے۔ اس وقت جنرل باجوہ 10 کور کی کمان کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: پاک فوج کا نیا سربراہ کون ہوگا ؟ ملک میں نئی بحث چھڑ گئی
جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف تقرری کے وقت لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید میجر جنرل تھے اور وہ پنو عاقل، سندھ میں ایک انفنٹری ڈویژن کی کمان کر رہے تھے۔ آرمی چیف بننے کے کچھ عرصے بعد ہی جنرل باجوہ نے انہیں آئی ایس آئی میں ڈائریکٹر جنرل کاؤنٹر انٹیلی جنس لگایا جہاں وہ داخلی سلامتی کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات کے بھی ذمہ دار تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل بننے کے بعد انہیں اپریل 2019 میں جی ایچ کیو میں ایجوٹنٹ جنرل تعینات کردیا گیا۔ دو ماہ بعد ہی انہیں حیرت انگیز طور پر ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کردیا گیا۔ اس حیثیت میں انہوں نے کئی امور میں حکومت کی معاونت کی۔ ان میں توانائی کے شعبے میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے مذاکرات کرنا، حکومتی اصلاحات، معیشت کی بحالی شامل تھی۔ اس کے علاوہ وہ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے امور پر کام کرتے رہے۔
ضرور پڑھیں:نواز شریف کے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی راہیں ہموار ہونے لگیں
بطور ڈی جی آئی ایس آئی اپنے آخری دور میں وہ آرمی چیف اور عمران خان کے تنازع میں توجہ کا مرکز بنے۔ آرمی چیف انہیں کور کمانڈر پشاور تعینات کرنا چاہتے تھے لیکن عمران چاہتے تھے کہ وہ ڈی جی آئی ایس آئی ہی رہیں۔ بلآخر انہیں پشاور میں تعینات کردیا گیا جہاں انہوں نے ایک سال سے بھی کم عرصہ گزارا جس کے بعد انہیں کور کمانڈر بہاولپور تعینات کردیا گیا۔
سیاسی مبصرین کے خیال میں یہ بہت مشکل ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت انہیں آرمی چیف کے لیے منتخب کرے کیونکہ وہ گزشتہ حکومت کے دور میں بطور ڈی جی آئی ایس آئی خبروں کی زینت بنے رہے۔ تاہم اس کے بعد بھی ان کی تعیناتی ناممکن نہیں ہے۔