(ویب ڈیسک)سابق پی ڈی ایم حکومت مالی سال 23-2022 میں 7.7 فیصد کا بڑا مالیاتی خسارہ پیچھے چھوڑ کر گئی جو خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے 7 فیصد خسارے کے دعوؤں سے نمایاں طور پر زیادہ ہے،پی ٹی آئی کی حکومت کے آخری مالی سال (2022) میں بنیادی خسارہ جی ڈی پی کا 3.1 فیصد یا 20.77 روپے تھا جو نمایاں طور پر کافی زیادہ تھا۔
رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ مالیاتی آپریشنز کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2023 کے دوران مجموعی مالیاتی خسارہ 65.21 کھرب روپے (جی ڈی پی کا 7.7 فیصد) رہا جب کہ رواں مالی سال2024 کا بجٹ جون میں منظور کرتے وقت حکومت نے مجموعی مالیاتی خسارہ 59.4 کھرب روپے ( جی ڈی پی کا 7 فیصد) ہونے کا دعویٰ کیا تھا ، اس کے برعکس اعداد و شمار کے درمیان تقریباً 580 ارب روپے کا فرق سامنے آیا ہے، دونوں دستاویزات وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔
اسی طرح گزشتہ حکومت نے بنیادی خسارہ جی ڈی پی کا 0.5 فیصد ہونے کا دعویٰ کیا تھا، جو مالی سال 2023 کے لیے 421 ارب روپے بنتا ہے لیکن تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بنیادی خسارہ جی ڈی پی کا 0.8 فیصد یا 690 ارب روپے تھا۔
وفاق نے مالی سال 2023 کے مالیاتی خسارے پر قابو پانے کیلئے مالی سال 2024 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے 459 ارب روپے صوبوں سے حاصل ہونے والے سرپلس کا تخمینہ لگایا لیکن صوبوں نے صرف 155 ارب روپے فراہم کیے جس سے تقریباً 304 ارب روپے کا خسارہ ہوا جب کہ تقریباً 385 ارب روپے کا بقیہ خسارہ وفاقی حکومت کی جانب سے تھا۔
اس کے مقابلے میں پی ٹی آئی حکومت کے آخری مالی سال کے دوران تمام تر ’مالی بے ضابطگیوں اور عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی‘ کے باوجود خسارہ جی ڈی پی کے 7.9 فیصد یا 52.6 کھرب روپے رہا جو موجودہ خسارہ سے کچھ زیادہ ہے۔