(24نیوز)نیب ترامیم کیخلاف چئیرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ بینچ میں شامل ایک معزز جج نے اعتراض اٹھایا ہے،قانون کے مطابق اکثریتی فیصلہ ہی لاگو ہوتا ہے،ہم اس کیس کو چلانا چاہتے ہیں،کیس کی سماعت 28 اگست تک ملتوی کی جاتی ہے، اگر نیب ترامیم کیس پر فیصلہ نہ دے سکا تو یہ میرے لئے باعث شرمندگی ہو گا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ کیس کو چلانا چاہتے ہیں،28 اگست سے روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کریں گے، ضروری نہیں کہ کیس کے میرٹس پر ہی فیصلہ کریں،ممکن ہے کیس کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ آئے،فریقین آئندہ سماعت پر حتمی دلائل دیں،یہ کیس 2022 سے زیر التوا ہے، 2023 میں نیب قانون میں کی گئی ترامیم کو ہمارے سامنے کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا۔
جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ47 سماعتیں ہوچکی ہیں پہلے دن بنیادی حقوق سے متعلق سوال کیا تھا،آج تک اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا کہ نیب ترامیم سے کونسا بنیادی حق متاثر ہوا،اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ نیب ترامیم کیس طویل عرصے سے زیر سماعت ہے،میری ریٹائرمنٹ قریب آن پہنچی ہے،یہ انتہائی اہم مقدمہ ہے مجھے ہر صورت فیصلہ دینا ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: نیب ترامیم کیخلاف سماعت،جسٹس منصور علی شاہ نےبینچ پر اعتراض اٹھا دیا
دوران سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست گزار کے وکیل مخدوم علی خان سے استفسار کیا بتائیں کیا یہ بینچ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت نیب ترامیم کیس کی سماعت جاری رکھ سکتا ہے؟ جبکہ چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کو ہدایت کی کہ اگلی سماعت پر اس نکتے پر تیاری کرکے آ جائیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا جسٹس منصور علی شاہ کے نکتے سے متفق ہوں، اس نکتے پر عدالت کی معاونت تیاری کے بعد کر سکوں گا، عدالت نیب ترامیم کے قابل سماعت ہونے کی حد تک سماعت جاری رکھ سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ کوئی اتنا منفرد اور خاص کیس ہے کہ قانون کو نظر انداز کرکے اسے سنیں؟ جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اگر واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل184/3 کے تحت یہ کیس قابل سماعت ہے تو سماعت چلے گی جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا معاونت کریں کہ کیسے یہی بینچ کیس سن سکتا ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ اگر عدالت نے نیب ترامیم کیس کی سماعت مکمل کرلی ہے تو پھر یہی بینچ ہو سکتا ہے بصورت دیگر قانونی طور پر یہ بینچ کیس کی سماعت نہیں کر سکتا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اختلافِ رائے کے باوجود عدالتی فیصلہ اکثریتی ججز کا ہوتا ہے، اب تک 27 سماعتوں پر درخواست گزاروں اور 19 پر مخدوم علی خان نے دلائل دیئے، یہ اتنا لمبا کیس نہیں تھا، کیس کے ناقابل سماعت ہونے پر مخدوم علی خان اچھے دلائل دے چکے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ آپ سماعت سے بچنا کیوں چاہ رہے ہیں؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کیس سے بچ نہیں رہا، بطور وکیل عدالت کی معاونت میرا فرض ہے۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کو بتا چکے کہ حکومت نے نیب قانون میں متعدد ترامیم کیں، اپنی دانست میں عدالت کی بہترین معاونت کی، خواجہ حارث پچھلے 3 ماہ سے چیئرمین پی ٹی آئی کے بیشتر مقدمات کے لیے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے وکیل درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ 2023 میں کی گئی ترامیم کا جائزہ ہم لے سکتے ہیں، عدالت کے سامنے 2022 کی نیب ترامیم چیلنج کی گئی تھیں، نئی نیب ترامیم اور اپنے تحریری جوابات جمع کرا دیں۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت 28 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ 28 اگست سے روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کریں گے،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ضروری نہیں کہ نیب ترامیم کی میرٹس پر ہی فیصلہ کریں، ممکن ہے کیس کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ آئے۔