(حافظہ فرسہ رانا) اس سماج میں بغاوت کریں یا مجبوری کو قبول کر لیں دونوں کی منزل عورت کے لیے پچھتاوا ہی ہے۔’شادی کسی بھی لڑکی کا انتخاب ہے یا مجبوری ہے؟‘اس کا جواب مرکزی کردار نور کی تقریر میں ہی ملتا ہے کہ شادی کسی بھی لڑکی کا پہلا انتخاب نہیں بلکہ اس کی مجبوری ہے کیونکہ لڑکی کی شناخت بیوی کے طور پہ ہے۔ اس کی اپنی الگ کوئی شناخت، کوئی پہچان نہیں ہے۔ڈرامہ نور اپنے پہلے ہی سین سے اپنے ہونے کی گواہی دے رہا ہے بلکہ اگر کہا جائے پہلے ہی سین میں ڈرامے کا موضوع سمجھ آ رہا ہے۔
کہانی میں نور کی پھوپھی امی کو غیر شادی شدہ لیکن ایک کامیاب ورکنگ خاتون کے طور پہ دکھایا گیا ہے۔ اس کے باوجود انہیں اپنے ادھورے ہونے کا احساس ہے، اسی لیے وہ چاہتی ہیں کہ نور کی شادی جلد اور اچھی جگہ پہ ہو جائے۔ گویا ایک کامیاب عورت کی الگ سے شناخت بھی اس کو وہ اعتماد نہیں دے پا رہی، جو ایک عام گھریلو عورت یا اس کی بھابھی کو حاصل ہے۔پھوپھی امی چونکہ بھائی کے ساتھ رہتی ہیں کہ عورت کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ وراثت بھی بھائی کی ہوتی ہے، اس لیے بھابھیاں ایسی بہنیں ان کی موت تک برداشت کرنے پہ مجبور ہو جاتی ہیں کہ آخرکار وراثت ان کی اولاد کو مل جائے گی۔ یہاں بھی وراثت اور موت ہی کا انتظار ہے۔
نور کے والد کی دو شادیاں ہیں۔ پہلی شادی سے نور ہے، دوسری شادی سے ان کی دوسری بیوی کی بیٹی رابعہ ہے، جو بیوی کے جہیز میں ساتھ آئی ہےگویا نور اور رابعہ کے والد الگ ہیں۔رابعہ نور سے بڑی ہے لیکن ہر وقت نور سے تقابل میں رہتی ہے اور تقابل کا حاصل سوائے اپنی ذات کو مزید مشکل اور ڈپریشن میں مبتلا کرنے کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔مڈل کلاس خاندان مڈل کلاس علاقے میں لڑکیوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے، وہی نور کے ساتھ ہونے چلا ہے۔
کالج میں کی گئی جس تقریر سے ڈرامے کا آغاز ہوا ہے اور جس پہ نور کو پہلا انعام ملا ہے، اسی سے متاثر ہو کر تقریب کی مہمان خصوصی اپنے بیٹے کا رشتہ اس کے لیے بھیج دیتی ہیں۔
کہانی میں گلی کا وہی اوباش لڑکا جو پہلی قسط میں اپنی موٹر بائک پہ نور کا پیچھا کرتا دکھایا گیا ہے، ایک دن اس کے گھر اس کی پڑھائی میں کمزور بہن رابعہ کو پڑھانے نہ صرف اس کے گھر پایا جاتا ہے بلکہ وہ نور کا رشتہ اپنی سازش کی وجہ سے توڑنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ہیرو بھی کمال کا غیر حاضر دماغ بلکہ الٹے دماغ کا ہے، دوسروں کی بات پہ یقین کر لیتا ہے، اپنے انتخاب پہ اعتبار نہیں کرتا۔
نور کا اس اوباش کے ساتھ بچپن کا افیئر یا محبت ہے جس کے بارے میں پورے محلے کو خبر ہے اور اس کے گھر والوں کا توکام ہے کہ وہ امیر لڑکے پھنسا کر ان سے رقم بٹورتے ہیں اور اپنی راہ ناپنے لگتے ہیں۔
انسان کا حلیہ اس کی پہلی پہچان ہوتی ہے محبت ایسی سماجی تہمتوں کی پروا نہیں کرتی۔اوباش صاحب نے نور کو سوچوں کے جال میں ڈال کر کہانی کو ڈراما کر دیا ہے۔
دوسری طرف نور کی سوتیلی ماں اور بہن پوری کوشش کرتے ہیں کہ اس لڑکے سے رابعہ کا رشتہ طے ہو جائے لیکن لڑکے کی ماں کو بھی نور پسند آتی ہے۔مڈل کلاس میں لڑکیوں کے حوالے سے ان مسائل کا سامنا بھی ان کی پڑھائی کے رستے کی رکاوٹ بنتا ہے اور جلد از جلد ان کی شادی کروانے کے بارے میں سوچا جاتا ہے، ورنہ گلی محلے کے فارغ لونڈے خیالوں میں ان کے کردار کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں اور عمل سے کسر نہیں چھوڑتے۔
ایک عورت کو مرد کی ضرورت پڑتی ہے جسے راہ نجات کہہ لیجیے یا شادی کہہ لیجیے، جو انتخاب سے زیادہ مجبوری ہوتی ہے۔ہر لڑکی میں سماج سے بغاوت کر لینے کی ہمت نہیں ہوتی۔ جو کر لیتی ہیں وہ بھی اپنے پیاروں کے بارے میں روایت ہی میں عافیت کی راہ تلاشتی ہیں کیونکہ انہیں علم ہو جاتا ہے۔معاذ صاحب اب جذباتی فیصلہ کرنے پہ پچھتا رہے ہیں اور نور کی یاد میں تارے گن رہے ہیں، جیسے کوئی بہت بڑے عاشق ہوں۔
رابعہ اور اس کی ماں کو معلوم نہیں کہ رشتہ کیوں ٹوٹا ہے مگر دونوں خوش ہونے کے ساتھ ساتھ، اس تمنا میں بھی گھل رہی ہیں کہ وہ امیر لڑکا رابعہ کے ساتھ اچھا لگتا ہے۔ کاش کسی طرح وہ ایک بار اس چاند چہرے کودیکھ کر اظہار عشق مشق کر دے۔یہ وہ شاطر سوچیں ہیں جن کی وجہ سے رشتوں کی چال تو چل جاتی ہے مگر وکیلوں کا کاروبار بھی خوب چلتا ہے۔
سوشل میڈیا پہ ڈرامے کو بہت پسند کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی ڈراما حقیقت کے قریب ہوتا ہے اس لیے اس کی اگلی قسط کا انتظار رہتا ہے۔
لیکن کہانی اب جس موڑ پہ آ کھڑی ہوئی ہے وہاں سے دھاگے الجھنے والے ہیں۔ اب ہیرو ہیرو نہیں رہا، ولن نما بن گیا ہے اور ولن تاحال ہیرو بن کر نور کے سامنے سوال بنا ہوا ہے۔