(24نیوز) فرنٹو ٹیمپورل ڈیمنشیا (ایف ٹی ڈی) ایک لاعلاج بیماری ہے جو دماغ کے فرنٹل اور ٹیمپورل لوبز میں اعصابی خلیات کی مسلسل کمی سے ہوتی ہے۔ اس سے کسی کی شخصیت، رویہ اور زبان بدل جاتی ہے۔
یہ عام طور پر سمجھے جانے والے ’ڈیمنشیا‘ سے الگ ہے۔ ایک جیسی علامات والی ذہنی بیماریوں کے لیے استعمال ڈیمنشیا کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں اور اس فہرست میں الزائمرز بھی شامل ہے۔
( ایف ٹی ڈی ) ایک غیر معمولی بیماری ہے جو 45 سے 65 سال کی عمر کے لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔ اس کی کچھ اقسام عمر رسیدہ افراد میں بھی پائی جاتی ہیں۔
الزائمرز ایسوسی ایشن کے مطابق ایف ٹی ڈی کی مختلف اقسام ہیں تاہم اندازوں کے مطابق امریکہ میں اس بیماری سے 50 سے 60 ہزار لوگ متاثرہ ہیں۔امریکہ میں قائم میو کلینک کے مطابق یہ 60 سال سے کم عمر کے لوگوں کو متاثر کرنے والی ڈیمنشیا کی سب سے عام قسم ہے، حالانکہ یہ تمام ڈیمنشیا کیسز کا صرف 10فیصد سے 20 فیصد ہے۔
ڈیمنشیا کی دیگر اقسام کی طرح’ایف ٹی ڈی‘ آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہے اور مسلسل بدتر ہوتا جاتا ہے۔
علامات
اس مرض کی علامات کا اظہار دماغ کے مثاثرہ حصوں پر منحصر ہے لیکن ان علامات میں شخصیت یا طرز عمل میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ زبان، ارتکاز اور یاداشت کی مشکلات شامل ہو سکتی ہیں۔
دیگر علامات میں جسمانی مسائل ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مثانے یا آنتوں کے مسائل، پٹھوں کی کمزوری یا نگلنے میں دشواری۔
اس کی علامات میں رویے میں تبدیلی بھی شامل ہے۔ اس کی وجہ سے نامناسب سماجی رویہ، کمزور فیصلہ سازی اور آسانی سے توجہ ہٹنے کی شکایات سامنے آتی ہیں۔
میو کلینک کے مطابق ایف ٹی ڈی سے لوگوں کی شخصیت اور رویے متاثر ہوتے ہیں اور بعض اوقات اسے ذہنی مرض سمجھ کر غلط تشخیص کی جاتی ہے۔
اس بیماری کا کوئی علاج نہیں اور نہ ہی اس کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے تاہم اس کی علامات کے لیے کچھ علاج موجود ہیں۔بیماری بڑھنے سے مریضوں کو ہر وقت نگرانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ تشخیص کے بعد اوسطاً لوگ آٹھ سے 10 سال تک زندہ رہتے ہیں تاہم کچھ لوگ طویل عرصے تک بیماری کے ساتھ زندگی گزار پاتے ہیں۔
مزید پرھیں:بچوں میں نئی قسم کی بیماری دریافت، طبی ماہرین کا تہلکہ خیز انکشاف
تشخیص:
اس کی تشخیص کے لیے کوئی خصوصی ٹیسٹ موجود نہیں۔ اس لیے تشخیص کے لیے طویل مدتی ٹیسٹ کیے جاتے ہیں تاکہ دوسری بیماریوں کا امکان خارج کیا جاسکے۔اگر آپ رویے اور زبان میں تبدیلیاں دیکھیں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ ان لوگوں میں اس بیماری کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے جن کے خاندان میں پہلے سے لوگ اس سے متاثر ہوئے ہوں۔