گوگل کی نون لیگ میں شمولیت

ثناء آغا خان

Jan 18, 2023 | 15:07:PM

 یہ تو سنا تھا کے مصنوعی طریقے سے پیداوار  کو بڑھایا جا سکتا ہےانڈوں سے چوزے نکالے جا سکتے ہیں یہاں تک کے پیدائش نسل انسانی بھی اس جدید دور میں مصنوعی طریقے سے بآسانی کی جا سکتی ہے ۔ مگر حیران کن بات کچھ دن پہلے سامنے آئی جب ایک پریس کانفرنس میں ہمارے سابق  وفاقی وزیر خزانہ نے یہ کہا کہ حکومت نے  مصنوعی طریقے سے روپے کی اصل قدر روک رکھی ہے۔ مطلب دنیا زمانے کی  ترقیاتی منصوبے ایک طرف اور پاکستان کی ترقی سبحان اللہ۔

ضرور پڑھیں :ٹک ٹاک کا پاکستانی طلبہ کیلئے تحفہ
ایسے وقت میں جب روپے کی قدر گھٹتی جا رہی ہے اور ڈالر 239 روپے تک پہنچ گیا ہے،  کچھ دن پہلے اچانک ہی گوگل پر ڈالر کی قیمت 207 روپے دکھائی دی جس نے دیکھنے والوں کو چونکا دیا اچانک ڈالر کا ریٹ اتنا کیسے گر گیا؟‘  پہلے بہت حیرت ہوئی مگر پھر گوگل پر شک ہونا شروع ہو گیا کہ کہیں یہ بھی موجودہ حکومت کے ساتھ تو نہیں مل گیا ؟کچھ لوگ خوشی کا اظہار کرتے نظر آئے وہ لوگ جو ملک سے باہر سفر کرنے کی خواہش رکھتے ہیں یا جنہیں اشیاء اور خدمات کی ادائیگی کیلئے امریکی ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت سے پریشان تھے، اس دن ان کو  گوگل نے کچھ وقت کے لئے خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا جب ویب سائٹ پر کرنسی کنورٹر پر امریکی ڈالر کی غلط قیمت ظاہر  ہوئی یہ پہلی بار نہیں کہ گوگل نے امریکی ڈالر کی پاکستانی روپے کے مقابلے میں حقیقی قدر نہیں دکھائی اس سے قبل اتفاقی طور پر ایسا اس وقت ہوا تھا جب امریکی کرنسی کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔ لیکن اس خوش فہمی پر جلد ہی پانی پھر گیا جب یہ معلوم ہوا کہ دراصل یہ سرچ انجن گوگل کی غلطی ہے باقی ذرائع ڈالر کا اصل ریٹ بتا رہے ہیں۔


ہم ایک ایسی دنیا کی قیاس آرائیاں کا معمول بن گئے ہیں جہاں غلط معلومات کا فروغ ایک کاروبار بن چکا ہے، روپے کی قدر میں کمی کا آسانی سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اس سلسلے کو  ڈالر کے اتارچڑھاؤ سے سمجھتے ہوئے غیر جذباتی، بے غرض اور مشکل فیصلے کرنے سے روکا جاسکتا ہے۔ سرمائے کی تشکیل جرم نہیں لیکن پالیسی فریم ورک کو اس کی بنیاد پر رکھنا اور 210ملین پاکستانیوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنے سے بچانے کے لئے کچھ نہ کرنا یقیناً جرم ہے۔


گزشتہ چند ایک ماہ بلکہ چند ایک ہفتوں کے دوران پیش آنے والے واقعات نے بہت سوں کے ذہن میں ملک کی معیشت کے بارے میں سنگین خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی سے پیدا ہونے والی صورت حال کو اقتصادی اور سیاسی غیر یقینی پن نے مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ اس سے مالیاتی مارکیٹوں میں لرزش طاری ہونے لگی ہے۔ انٹرنیشنل ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی مختصر مدت کے لیے ریٹنگ کم کر دی ہے۔ اس کے نتیجے میں طویل المدت ریٹنگ بھی منفی ہو گئی جس انداز اور جس بلا روک ٹوک رفتار سے ایشیا کی کبھی اہم ترین کرنسی گراوٹ کا شکار ہوئی اس نے ایک سوال ضرور اٹھا دیا:کیا کرنسی کی قدر میں کمی ایک کاروبار بن چکا ہے؟

یہ بھی پڑھیں :سید محسن رضا نقوی  ، احد  رضا چیمہ کون ہیں؟
لیکن اصل فائدہ اٹھانے والے کوئی اور ہوتے ہیں وہ جن کے امریکی ڈالر وں میں اثاثے ملک سے باہر ہیں وہ پر آسائش زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن شکایت کرنے والوں کی آواز میں آواز ملانا نہیں بھولتے۔ یہ 210ملین پاکستانی ہیں جنہیں مشکلات کا سامنا ہے اور جو امریکی ڈالروں میں لئے گئے قرضے کی قیمت چکائیں گے، وہ قرض جس کا حجم ہر گزرنے والے سال بڑھتا چلا جائے گا لیکن اس کی پروا کسے ہے؟ افسوس کسی کو نہیں۔ حکومتوں کے آنے جانے اور کرسی کی باگ دوڑ میں پستا صرف عام انسان ہے۔ جس نے ڈالرز میں لیا ہوا قرضہ ڈالرز میں ہی اتارنا ہے۔

مزیدخبریں