(ویب رپورٹ) سابق امریکی صدر جارج بش جنہوں نے کبھی افغانستان کی جنگ کو ’صلیبی جنگ‘ قرار دیکر طالبان پر حملہ کرنے کیلئے افغانستان میں جارحیت کی تھی نے ایک بار پھر20سال پرانا الزام دہرایا ہے کہ طالبان دنیا کے سب سے بے رحم لوگ ہیں اور افغانستان کی خواتین کو ان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔انہوں نے فوج کے انخلا کو پوری طرح سے غلط فیصلہ قرار دیا ہے.
بھارت کے ایک اردو اخبار کی ویب رپورٹ کےمطابق کبھی دنیا کو ’’ یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا طالبان کے ‘‘ کہہ کر متنبہ کرنے والے امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کو ایک غلط فیصلہ قرار دیا ہے اور وہاں کی خواتین اور لڑکیوں کے تحفظ کے تعلق سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کی وجہ سے ان کا دل ٹوٹ گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ جارج بش ہی تھے جن کے دور صدارت میں امریکہ کی قیادت میں نیٹو افواج نےاکتوبر 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا تھا۔سابق امریکی صدر نے جرمنی کے سرکاری نشریاتی ادارےڈی ڈبلیو ( ڈوئچے ویلے) کو انٹرویو دیتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ کے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔ جارج بش ایک خصوصی انٹرویو میں حصہ لے رہے تھے جس میں جرمن چانسلر انجیلا میرکل کے دور حکومت میں کئے گئے اقدامات اور ان کے امریکہ سے تعلقات کے بارے میں سوالات کئے جا رہے تھے کہ اسی دوران اینکر نے ان سے افغانستان سے متعلق سوال کیا جس پر جارج بش نے کہا کہ ’’ انجیلامیرکل نے افغانستان میں فوج بھیجنے کی حمایت کی تھی کیونکہ وہ وہاں پر خواتین کی آزادی اور لڑکیوں کی تعلیم کو یقینی بنانا چاہتی تھیں۔ اینکر نے جب ا ن افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کی فوج کے انخلا کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نے کہاکہ ’’ یہ درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے افغانستان کی خواتین اور لڑکیاں ایک بار پھر مشکل میں آجائیں گی۔‘‘ جب اینکر نے پوچھا ’’تو کیا یہ فیصلہ غلط ہے؟‘‘ تو سابق صدر نے جواب دیا ’’ بالکل، یہ فیصلہ صحیح نہیں ہے۔ افغانستان کی خواتین کو طالبان کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے پرنا الزام دہرایا کہ ’’ وہ (طالبان) سب سے بے رحم لوگ ہیں جو دوبارہ اسی طرح کے مظالم شروع کر دیں گے۔ ‘‘ جارج بش نے جذباتی انداز میں کہا’’ اس فیصلے سے میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ 2001 ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے مبینہ کلیدی ملزم اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے جرم میں افغانستان کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس وقت جارج بش امریکی صدر تھے جنہوں نے افغانستان کی جنگ کو ’ ہماری صلیبی جنگ ‘ قرار دیا تھا جس پر دنیا بھر میں ان پر تنقیدیں ہوئی تھیں۔ یہ جارج بش ہی تھے جنہوں نے دنیا کو ’اسلامی دہشت گردی‘ کی مذموم اصطلاح دی تھی۔ انہوں نے دنیا کے تمام ممالک سے کہا تھا کہ وہ یا تو امریکہ کے ساتھ ہیں یا طالبان کے ساتھ ہیں (یعنی وہ غیر جانبدار نہیں رہ سکتے) خاص کر پاکستان کو جارج بش نے دھمکایاتھا کہ ’’ پاکستان ہمیں ہاں یا نہ میں جواب دےکہ وہ ہمیں طالبان کے خلاف حملے کیلئے اپنی زمین استعمال کرنے دے رہا ہے یا نہیں۔‘‘ اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف نے فوراًامریکہ کا ساتھ دینے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ بعد میں پرویز مشرف نے اپنی سوانح حیات میں لکھا تھا کہ جارج بش نے انہیں دھمکایا تھا کہ اگر افغانستان پر حملے میں انہوں نے امریکہ کی مدد نہیں کی تو وہ پاکستان کو ’پتھر کے دور‘ میں پہنچا دیں گے۔ 2008 میں جارج بش کا دور اقتدار ختم ہوتے ہوتے خود انہیں احساس ہو چکا تھا کہ امریکہ افغانستان کی جنگ میں پھنس چکا ہے اور اب وہاں سے نکلنا اتنا آسان نہیں ہے ۔ اس لئے جارج بش کے زمانے ہی میں ’کچھ اچھے طالبان ‘ سے گفتگو کی کوشش شروع ہوئی تھی۔ لیکن وہ ’اچھے طالبان‘ امریکہ کو میسر نہیں آئے اور بالآخر 2013 میں شروع کی گئی کوششوں کے بعد 2018 میں ڈونالڈ ٹرمپ دوٹوک فیصلہ کیا کہ وہ افغانستان سے فوج واپس بلا لیں گے اور انہوں نے طالبان سے امن معاہدہ کر لیا۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ اور جارج بش دونوں ایک ہی پارٹی یعنی ری پبلکن سے تعلق رکھتے ہیں۔ جنگ کا فیصلہ جارج بش نے کیا تھا اور صلح کا فیصلہ انہی کی پارٹی کے ٹرمپ نے کیا لیکن اس وقت جارج بش نے کوئی بیان نہیں دیا اور وہ ٹرمپ کی جانب سے پہلے طالبان سے گفتگو اور امن معاہدے پر دستخط کے بعد وعدے کے مطابق امریکی فوج کی واپسی پر خاموش رہے ۔ اب جبکہ ڈیموکریٹ پارٹی کے جو بائیڈن اقتدار میں ہیں اور وہ ٹرمپ ہی کے معاہدے کے مطابق فوج واپس بلانے کا عمل مکمل کر رہے ہیں تو جارج بش ’دل ٹوٹنے‘ کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ جس اینکر نے جارج بش کا انٹرویو لیا خود اس نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ’’ یہ سابق امریکی صدر کا جوبائیڈن پر تنقید کرنے کا ایک حیلہ ہے ورنہ فوج واپس بلانے کا فیصلہ تو ڈونالڈ ٹرمپ کا تھا‘‘۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان قندھار میں داخل، افغانی حکومت نے کرفیو لگا دیا