پرویز خٹک کی پارٹی، سیاسی میراثی کی عزت کا کباڑہ
Stay tuned with 24 News HD Android App
بادشاہ وقت کو اطلاع ملی کے چند لوگ اس کی بادشاہت کو للکار رہے ہیں اور ریاست کے معصوم لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں گرفتاری کا حکم ہوا 4 مجرم دربار میں پیش ہوئے۔ بادشاہ نے جرم کی نوعیت کو دیکھ کر کسی کو پھانسی کا پھندہ، ایک کو بم سے اُڑانے اور ایک کو کالا پانی میں قید تنہائی کی سزا دی۔
باغیوں میں بادشاہ کا میراثی بھی شامل تھا جو اس کے قصیدے پڑھا کرتا اور لطیفے سنایا کرتا تھا، بادشاہ کو دیکھ کر غصہ تو بہت آیا لیکن اس نے میراثی پر ترس کھایا جان بخش دی مگر کہا کہ اس کی ’عزت کا کباڑہ‘ کرو، یہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے، میراثی دل ہی دل میں خوش ہوا کہ چلو جان تو بچ گئی عزت کا کیا ہے وہ تو پہلے بھی کچھ خاص نہیں تھی۔
دروغہ جیل چاروں مجرمان کو لیکر چلا تو کچھ دیر بعد بھول گیا کہ مجرم نمبر دو کو کیا سزا دینی تھی وہ واپس دربار کی طرف بھاگا اور مجرم کی سزا کی تصدیق کرکے واپس آیا تو میراثی نے بھانپ لیا کہ یہ بھلکڑ آدمی ہے دوبارہ چلنے لگا تو میراثی نے دروغہ سے کہا جناب یاد ہے نا میری صرف عزت کا کباڑہ کرنا ہے؟
یہ بھی پڑھیے: یاجوج ماجوج اور معیشت کی دیوار
مجھے یہ بات اس لیے یاد آئی کہ سیاسی میراثی آجکل یاد دہانی کیلئے بار بار اس بات کی دہائی دیتے نظر آتے ہیں کہ فلاں کے کپڑے اتارے گئے اور شرمناک سلوک کیا گیا، 75 سالہ بزرگ کے بھی کپڑے اتارے گئے اور وہی سلوک دوبارہ کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ اس بات کو بار بار دُہرانے کا ایک ہی مقصد ہے کہ دروغہ صاحب کو یاد رہے کہ عزت کا کباڑہ ہی کرنا ہے کچھ اور نہیں۔
پاکستان کے قیام سے لیکر آج کے دن تک اقتدار کی لیبارٹری میں بے شمار تجربات کیے گئے، یہ تجربے کرنے والے کسی ایک گروہ کے نمائندے نہیں تھے، ہر ایک کو تجربہ کرنے کا جنون تھا کبھی جنرل ایوب خان نے اس لیبارٹری میں وون یونٹ کا تجربہ کیا جو کامیاب نہ ہوا، پھر قائد عوام کا تجربہ ہوا جو سولی چڑھنے تک گیا، ایک تجربہ، خاتون وزیراعظم کا بنا کر کیا گیا۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں، وڈیرہ شاہی کو ختم کرکے صنعت کے نمائندے کو لانے کا تجربہ نواز شریف کی صورت میں کیا گیا اور پھر کیا تھا ایک نئی سیاسی جنگ کا آغاز ہوا جس میں کبھی وڈیروں نے کامیابی حاصل کی اور کبھی سرمایہ دار کامیاب ہوئے۔
یوں ضیائی مارشل لاء سے لیکر مشرفی مارشل لاء تک یہ جنگ جاری رہی تو موڈریٹ طبعیت کے مالک جنرل پرویز مشرف کو کچھ نیا کرنا کا سوجھا، سو انہوں نے سٹار ڈوم عمران خان کا انتخاب کیا، بیرونی طاقتوں کے زیر اثر اس پراجیکٹ کو لانچ کیا گیا، بیس سال تک اس پودے کی آبیاری کی جس نے اپنے بنانے والوں کو پھل پھول نہیں کانٹے دیے تو درخت کو کاٹنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اس بار فیصلہ مرنے مارنے والا نہیں ’میراثی کو ملنے والی سزا‘ کے مصداق ہوگا یعنی عزت کا کباڑہ۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیل ، بھارت اورعمران! یک جسم ،یک زبان ، یک جان
اس کیلئے پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی بنی ہے تو خیبرپختونخواء میں پرویز خٹک کی قیادت میں پی ٹی آئی پارلیمینٹرینز۔
پرویز خٹک منجھے ہوئے پرانے سیاسی کارکن ہیں یا یوں کہیے کہ وہ خیبرپختونخواء میں اب ایک سیاسی خانوادے کے جد امجد یا بانی ہیں کیونکہ انہوں نے موروثی سیاست کا نعرہ رکھنے والی پی ٹی آئی میں بھی اپنے بیسیوں رشتہ داروں کو سیٹیں دلوائیں، وزیر اعلیٰ اور وزیر دفاع جیسے عہدوں پر کام کیا اور اب اُن کی جانب سے پی ٹی آئی کا ایک گروپ بنانا ملکی سیاست میں کوئی بڑا بریک تھرو نہ بھی ہو لیکن اس سے خیبرپختونخواء کی سیاست میں ایک بھونچال ضرور آئے گا اور اس بھونچال کے آفٹر شاک آنے والے انتخابات میں واضع طور نظر آئیں گے۔
آنے والے دنوں میں یہ ایک ایسا گروپ ہوگا جس کی مرضی کے بغیر خیبرپختونخواء میں کوئی بھی حکومت بنانا آسان نہیں ہوگی، سابق وزیر اعلیٰ محمود خان کا اس گروپ میں جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ لین دین میں صرف صوبائی ہی نہیں وفاقی حکومت میں بھی شراکت داری درکار ہوگی، محمود خان صوبے میں جبکہ پرویز خٹک وفاقی سطح پر معاملات کو چلائیں گے، سابق وزیر دفاع ہونے کے باعث اسٹیبلشمنٹ میں اُن کے رابطوں اور اثر و رسوخ کی بھی نفی نہیں کی جاسکتی بلا شبہ وہ خیبرپختونخواء کی سیاست کے ’تیلی باز‘ ہیں جہاں چاہیں گے وہاں آگ لگا دیں گے۔
یہ بھی پڑھیے: پاکستانیوں کا گندہ ڈی این اے ! جعلی مفکر کی نئی دُر فتنی
یہ گروپ اگر حقیقت میں پی ٹی آئی (ع) یعنی عمران خان سے الگ پی ٹی آئی (پی) پارلیمینٹرینز بن گیا ہے تو الیکشن کے ذریعے حکومت میں واپسی کا عمران کا خواب بس خواب ہی رہے گا۔
عمران خان اور اُن کے متاثرین تجزیہ کار اب صرف ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں جس میں دروغہ جیل کو کہا جارہا ہے کہ ’یاد ہے نہ ہماری عزت کا کباڑہ کرنا ہے‘۔