پولیس جرائم کا خاتمہ کیسے کرسکتی؟ ایک بڑی مثال
Stay tuned with 24 News HD Android App

(سجاد اظہر پیرزادہ )اگر یہ کام کرلیا جائے تو بلوچستان سمیت ملک بھر میں امن قائم ہوسکتا ہے،ریاست کیخلاف ہتھیار اٹھانے والے ہوں یا پھر چور،ڈکیٹ،قاتل،قبضہ گروپ یا کوئی اور جرائم، ہر طرح کے کرائمز پر اِن کے بہت بڑے کرائمز کا رُخ اختیار کرنے سے پہلے ہی قابو پایا جاسکتا ہے۔
یہ کام ہے پولیس کو مکمل طور پر ایک پروفیشنل فورس میں ڈھالنے کا، آج ہم آپ کو بلوچستان سے ایک بہت بڑے ثبوت اور مثال کیساتھ یہی بتانے جارہے ہیں کہ صرف ایک اکیلی پولیس ہی کس طرح سے ہر طرح کے کرائمز پر قابو پاسکتی ہے،کیسے ہر طرف سکون،امن ممکن ہوسکتا ہے۔
پہلے آپ کو جرائم کے متعلق تھوڑا سا بتاتے چلیں کہ انسان جرم کرتا کیوں ہے، ایک ریسرچ کے مطابق برصغیر پاک وہند میں بسنے والے لوگوں کے مزاج دھیمے نہیں ہیں، اس خطہ زمین کے لوگوں کی اکثریت بنیادی طور پر جذباتی پائی جاتی ہے، وزارت صحت کے مطابق پاکستان میں 8 کروڑ سے زائد لوگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں،عام طور پر اسے ایک نفسیاتی عارضہ کہا جاتا ہے،جسے بائپولر ڈس آرڈر بھی کہتے ہیں، یہ موڈ میں شدید تبدیلیوں کا سبب بنتا ہے، اچھے موڈ میں آپ کچھ بھی کرجائیں اور اگر موڈ خراب ہوجائے تو پھر تو سامنے والا گیا کام سے،یہی کام تو ہورہا ہے خاص طور پر بلوچستان میں۔
غلط فہمیاں اور منفی رویے بھی انسان کو جرم پر ابھارتے ہیں، یہ جتنے بھی دہشتگرد نظر آتے ہیں یہ پہلے چھوٹے چھوٹے جرم کرتے تھے، کوئی انسان کیسے کسی انسان کی جان لے سکتا ہے؟ یہ کام چھوٹے چھوٹے جرم سے بڑے بڑے جرائم کی راہ اختیار کرنے والا دماغ کی خرابی میں مبتلا کوئی پاگل ہی کرسکتا ہے، اسی لیے پولیس کو جرم کے ہر واقعہ کو میرٹ پر دیکھ کر فوری طور پر اسے انصاف سے نمٹانے کی طرف جانا چاہیے اور دوسری طرف اگر کوئی جان بوجھ کر کسی لالچ میں جرم کا راستہ اختیار کرتا ہے تو پھر یہاں بھی فرنٹ لائن پر پولیس کا کردار ہی دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔
یہ پولیس ہی ہوتی ہے جو تمام جرائم پر فوری قابو پاکر ملک میں امن بحال رکھتی ہے، ملک میں امن بحال رہنے کا سب سے بڑا فائدہ کاروباری سرگرمیوں،انسانی زندگیوں،معاشرتی خوشحالی،سیاحت اور ملک کے نام کوہوتاہے،پھرہماری افواج بھی پولیس کی ناکامی کی وجہ سے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کا اپنا کام چھوڑ کر ملکی سلامتی کیلئے آپریشنز پر مجبور ہوجاتی ہیں، یہ پولیس ہی ہے جو چاہے تو تمام جرائم کا اپنے پروفیشنل رویے کے سبب آغاز سے ہی خاتمہ کرسکتی ہے۔ کیسے؟ آئیے اب آپ کو بڑی مثال دکھاتے ہیں۔
ابھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ کیسے بلوچستان لبریشن آرمی کے دہشتگردوں نے جعفر ایکسپریس ٹرین پر حملہ کیا اور پھر پاکستان کی افواج نے کمال بہادری سے ان تمام دہشتگردوں کا صفایہ کرکے مسافروں کو ان کے چنگل سے چھڑوالیا لیکن آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ بلوچستان سے ایسے دہشتگردوں، جرائم پیشہ لوگوں کو پکڑنے کا اپنا یہی کام کئی سال پہلے پولیس نے بغیر کوئی دیر کیے انتہائی پروفیشنل رویے اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود ہی انجام دیا تھا۔
یہ داستان بھی سننے کے لائق ہے کہ آج سے 27سال پہلے بلوچستان سے3دہشتگردوں نے گوادر ایئر پورٹ سے پی آئی اے کا ایک جہاز بھی اغوا کرلیا تھا جو کراچی کیلئے روانہ ہوا تھا،ان ہائی جیکرز نے جہاز کا رخ دہلی کی طرف موڑنے کا حکم دیاتھا، کنٹرول ٹاور اور کپتان نے ہوشیاری دکھاتے ہوئے ہائی جیکرز کو کسی نزدیک بھارتی علاقے میں جہاز اتارنے پر راضی کرلیا اور پھر پولیس کے ایک بہادر اے ایس پی عثمان انور نے اپنا وہ شاندار فرض نبھایا جس کی پولیس کو آج بھی تقلید کرنے کی ضرورت ہے، پولیس کے اس اے ایس پی نے کمانڈوز کے آنے کا انتظار کرنے کی بجائے بھارتی ایئر پورٹ کا رام چندر کے نام سے اسسٹنٹ مینجر بن کر اپنے ساتھی کے ہمراہ ان بلوچ دہشتگردوں کو حملہ کر کے انہیں دبوچ لیاتھا۔یہ دہشتگرد صرف ایک اے ایس پی کی مار نکلے تھے۔
یہ بھی پڑھیں : دبنگ افسر جس نے ہزاروں پولیس والوں کے چالان کردیے