(24 نیوز)فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال حاضر ہوں ۔ پہلے فیصل واوڈا اور پھر مصطفی کمال کی جانب سے پے در پے پریس کانفرنسز اور ان میں ججز پر کی جانے والی تنقید پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ نے دونوں کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب کرلیا ہے۔
پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے فیصل واڈا کی پریس کانفرنس کی تفصیلات طلب کرلیں اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کے روبرو پیش ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے پریس کانفرنس سنی؟ توہین عدالت ہوئی یا نہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مجھے جو ویڈیو ملی ہے اس کے متعلقہ حصے میں آواز نہیں تھی، کچھ حصہ خبروں میں سنا ہے اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ پریس کانفرنس توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے؟ کوئی مقدمہ اگر عدالت میں زیر التوا ہوتو اس پر رائے دی جاسکتی ہے؟ میرے خلاف اس سے زیادہ گفتگو ہوئی ہے لیکن نظر انداز کیا، میرے نظر انداز کرنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ ہم بھی تقریر کر لیں، لیکن کیا آپ اداروں کی توقیر کم کرنا شروع کردیں گے؟
ان کا کہنا تھا کہ وکلا ججز اور صحافیوں سب میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، برا کیا ہے تو نام لے کر مجھے کہیں ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، ہوسکتا ہے میں نے بھی اس ادارے میں 500 نقائص دیکھے ہوں،کیا ایسی باتوں سے اپ عدلیہ کا وقار کم کرنا چاہتے ہیں؟ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس کے پاس دلائل ہوں گے وہ ہم ججز کو بھی چپ کرادے گا، میں نے اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ ادارے کے لیے حلف لیا ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا چیخ پکار کرکے اپ ادارے کی خدمت کر رہے ہیں؟ میں مارشل لا کی توثیق کرنے والوں کا کبھی دفاع نہیں کروں گا، اگر میں نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کی سزا دیگر ججز کو نہیں دی جا سکتی، بندوق اٹھانے والا سب سے کمزور ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا، دوسرے درجے کا کمزور گالی دینے والا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایک کمشنر نے مجھ پر الزام لگایا، بھئی بتاو تو صحیح چیف جسٹس کیسے دھاندلی کروا سکتا ہے؟ سارے میڈیا نے اسے چلا دیا، مہذب معاشروں میں کوئی ایسی بات نہیں کرتا اس لیے وہاں توہین عدالت کے نوٹس نہیں ہوتے، چیخ و پکار اور ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت ہے، تعمیری تنقید ضرور کریں لیکن تنقید کی ایک حد ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ان کے بعد ایک اور صاحب آگئے جن کا نام مصطفی کمال ہے، انہوں نے بھٹو کا ذکر کیا، بھائی اگرہم نے غلط کیا ہے تو بتائیں، بھٹو کے بارے میں آپ نے کیا کیا ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو کو ہم زندہ تو نہیں کر سکتے،لیکن غلطی تو مان لی، صرف ایک کام کرنا ہے کہ ادارے کو بدنام کرنا ہے، آپ نے بڑی جدوجہد کردی تقریر کرکے، لیکن بہتری کے لیے کوئی بھی تحریری طور پر نہیں جاتا، آپ نے تقریر کرنی ہے تو پارلیمنٹ میں کریں نا، پریس کلب کیوں؟ نہوں نے ریمارکس دیے کہ باپ کے گناہ کی ذمہ داری بیٹے کو نہیں دی جاسکتی، اسی عدالت نے مارشل لا کی بھی آئینی توثیق کی ہے، اگر ایک ممبر قومی اسمبلی غلط ہے تو سارے پارلیمان کو غلط نہیں کہہ سکتے، ہمیں پتا ہے ہماری عدلیہ کون سے نمبر پر ہے،گالیاں دینا مناسب نہیں، ہر چیز پر حملہ نہ کریں ،آپ ادارے کو تباہ کر رہے ہیں، اگر توہین عدالت کی کارروائی چلائی تو کیس میں استغاثہ کون ہو گا؟ انہوں نے بتایا کہ استغاثہ اٹارنی جنرل ہوں گے۔مزید دیکھئے اس ویڈیو میں