فلم ’’جوائے لینڈ ‘‘پر اتنا ہنگامہ کیوں؟
توقیر کھرل | جب تک ہم فکری آزادی حاصل نہیں کرتے ایسی فلمیں بنتی رہیں گی جو بظاہر تو پاکستانی ہیں مگر اندر سے مغربی ہیں
Stay tuned with 24 News HD Android App
پاکستان میں جوں ہی کوئی فلم آتی ہے تو ریلیز ہونے سے پہلے ہی آواز آتی ہے بین کردو بھائی۔بند کردو اسے۔کچھ دن گزرتے ہیں تو اجازت مل جاتی ہے پھر پنجاب سے آواز آتی ہے اسے یہاں بین کردو یہاں تو کسی صورت نہیں چلنے دیں گے۔یہ تو ہمارے کلچر کے خلاف ہے۔اچھا،،ہمارا کلچر کیا ہے؟
فلموں میں کوا چُوری کھاتا ہے یہ ہے ہمارا کلچر۔۔یا پھر فلموں میں ڈنڈے بدمعاشی ہمارا کلچر ہے؟پہلے تو یہ طے کرلیں ہمارا کلچر بھی ہے کوئی؟
افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے لوگ کہتے تھے کہ آپ فحش لکھتے ہیں وہ سوال کرتاتھا جو میں لکھتا ہوں کیا وہ سب سماج میں نہیں ہوتا؟اگر وہ سماج میں ہوتا ہے اس سماجی بگاڑ کے خلاف کوئی تحریر یا فلم سے اسے آشکار کردے تو ہم اس کے خلاف کیوں ہوجاتے ہیں؟فلم کو حقیقت کیوں سمجھ بیٹھتے ہیں؟
جوائے لینڈ فلم آرہی ہے۔بین کردو بند کردو کی آوازیں بھی آرہی ہیں۔
فلم میں ایک مرد کی ٹرانس وومن سے شادی کو دکھایا گیا ہے۔مرد سے مرد کی نہیں
شادی کا تعلق مرد اور عورت کی شادی سے ہے مرد کی مرد سے شادی یا عورت کی عورت سے شادی تو ہوتی ہی نہیں۔ایک ایسا مرد جو اپنے صنف سے نفسیاتی طور پہ مطمئن نہیں تھا اس نے خود کسی خانے میں فِٹ ہونے کے لیے وہی کیا جو اسے نفسیاتی ڈس آرڈر کے تحت اچھا لگ رہا تھا۔ یہ تو رہی فلم کی کہانی۔
اب بات کرتے ہیں حقیقت کی.
62 علامتیں ہوتی ہیں جب کوئی مرد سے عورت بننے کی کوشش کرتا ہے اگر اس کی نفسیاتی کونسلنگ کی جائے تو وہ اس نفسیاتی عارضہ سے بچ سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ اسے نفسیاتی ڈس آرڈر ہی قرار دیتا تھا تاہم اب اسے الگ شناخت کے طور پہ لیا جاتا ہے۔اگر کوئی کونسلنگ سے بھی اس نفسیاتی عارضہ سے نہیں نکل سکتا تو وہ اپنے لئے پھر وہی کرتا ہے جو اسے اچھا لگتا ہے۔
آپ خود سوچیں پاکستان کے سماج میں اگر کوئی مرد عورت بنے گا تو سب سے پہلے تو اسے سماج کی نظرمیں برا سمجھا جائے گا اس کے بعد اسے جائیداد سے عاق کیا جائے گا۔
تو کیا کوئی مرد جان بوجھ کر ایسا کرے گا؟اب بات کریں قانون کی تو پاکستان کے قانون کے مطابق اگر کوئی مرد ٹرانس وومن سے شادی کرتا ہے تو یہ شادی ہی ہوگی۔ شرعی لحاظ سے بھی یہی احکامات ہیں۔
آپ یہ مت سمجھیں کہ میں اس فلم کو موضوع کے حق میں ہوں یا مخالفت میں۔۔۔مجھے دونوں سے کوئی سروکار نہیں۔۔سوال یہ بھی ہے کہ آخر پاکستان میں ایسی فلم بنائی ہی کیوں گئی؟کچھ دن پہلے تو ٹرانسجینڈر فلم کا معاملہ سڑکوں پر آیا اور اب یہ فلم۔۔۔اس کا مطلب یہ ہوا فلم بنانے والوں نے بھی جان بوجھ کر اس موضوع کا انتخاب کیا۔لیکن کیوں کیا اس کا جواب آپ کو ابھی دیتا ہوں۔
اگر ہم با ت کریں پاکستانی سینما میں بننے والی فلموں کی۔پڑوسی ملک ایران سے آج سے25سال پہلے آوینی نامی فلم ساز پاکستان آیا اور اس نے یہاں د و ماہ گزارے۔دو ماہ پاکستانی سینما کا بغور جائزہ لینے کے بعد اس نے کہا
پاکستان میں فلم سازی کا مرکز لاہور ہے۔ جہاں پچاس سے زائد سینما گھر موجود ہیں۔ ان میں سے پانچ بڑے اسٹوڈیوز ہیں۔ 1985 سے 1990 تک کل 91 فلمز بنائی گئیں اس نے پاکستانی فلمیں دیکھنے کے بعد کہا ”اردو فلم ایک ایسی ساڑھی کی مانند ہے۔ جو کسی انگریز عورت کو پہنا دی گئی ہو جو باہر سے تو روایتی اور اندر سے مغربی ہے۔یوں سمجھئے کہ ظاہری طور پر فلم مکمل اردو زبان میں اور پاکستانی کلچر کی عکاس ہے لیکن اس میں سوچ اور مواد غیر پاکستانی یا پھر مغربی ہے۔یہ بات 25سال پہلے کہی گئی تھی۔آپ جوائے لینڈ مووی کو دیکھ لیں اس کے موضوع کا انتخا ب بھی دیکھ لیں۔
ضرور پڑھیں :فلم جوائے لینڈ کے خلاف شکایات پر غور کیلئےوزیراعظم نے کمیٹی تشکیل دیدی
ایرانی فلساز آوینی ایک اور بات بھی کی تھی پاکستان کے سینما میں جب تک دانشور قدم نہیں رکھیں گے تو اچھی فلم بھی نہیں بنے گی۔دانشور بھی آیا ابوعلیحہ،،،،اسکے ساتھ کیا ہوا؟اس نے جاوید اقبال فلم بنائی مگر کیا ہوا وہی ہوا جو ہونا تھا بین کردی گئی پھر اس نے کیا کیا ابو علیحہ نے کہا یہاں فکری فلمیں بنانا وقت کا ضیاع ہے کوئی یہاں ایسی فلمیں ریلیز ہی نہیں کرنے دیتا؟
ایرانی فلم ساز نے کہا تھا پاکستانی سینما میں ابھی تک ایک بھی فکری فلم نہیں بنائی گئی ”جس کی وجہ سے بھارتی فلموں کو پاکستانی عوام میں ایک بے پناہ مقبولیت ملی ہے۔ اس مقبولیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ
اگرچہ پاکستان نے آزادی حاصل کر لی ہے لیکن پاکستانیوں نے ابھی تک فکری آزادی حاصل نہیں کی۔
جب تک ہم فکری آزادی حاصل نہیں کرتے ایسی فلمیں بنتی رہیں گی جو بظاہر تو پاکستانی ہیں مگر اندر سے مغربی ہیں۔