(24 نیوز)سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں وزارت داخلہ کی جانب سے عمران خان کے جواب پر جمع کرائے گئے شواہد پر چیئرمین تحریک انصاف کو جواب الجواب جمع کرانے کی مہلت دیدی۔عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں ہوئی۔
دوران سماعت وزارت داخلہ کے وکیل نے عمران خان کے جواب پر عدالت میں ویڈیوز اور دستاویزی شواہد جمع کرا دیے۔وزارت داخلہ کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کے جواب میں وزارت داخلہ نے جواب داخل کیا ہے، متفرق جواب کے ساتھ یو ایس بی بھی جمع کروائی ہے، متفرق جواب کی کاپی عمران خان کے وکیل کو بھی فراہم کی ہے جس پر وکیل عمران خان سلمان اکرم راجہ نے اس پر کہا کہ مجھے یو ایس بی نہیں ملی۔
سلمان اسلم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ یو ایس بی سے ثابت ہوتا ہے پی ٹی آئی کا 25 مئی کو لانگ مارچ کا ہدف ڈی چوک جانا تھا، یو ایس بی میں موجود شواہد سے یہ ثابت ہوتا ہے موبائل سروس بند نہیں تھی، لانگ مارچ کے کنٹینرسے مسلسل سوشل میڈیا پرٹوئٹ اور پوسٹ ہوتی رہیں۔
ضرور پڑھیں :توشہ خانہ سے تحائف لینے کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے،خواجہ آصف
جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا کہ اگر یو ایس بی کی دوسری سائیڈ نے تردید کر دی تو پھر کیا ہو گا؟ عدالت میں قابل قبول شواہد سے متعلق قانون کو پڑھیں جس پر وزارت داخلہ کے وکیل نے کہا کہ دوسری جانب سے بیشک تردید کر دی جائے، پی ٹی آئی کے اپنے اکاؤنٹ سے ٹوئٹس ہوتی رہی ہیں، جیمرز کی موجودگی میں ٹوئٹس کیسے ہو سکتی ہیں؟جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ متفرق درخواست کی نقل دوسری سائیڈ کو فراہم کریں جبکہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ توہین عدالت کیس کے کچھ حقائق ہیں، جیمرز سے متعلق آپ نے وضاحت کر دی ہے۔
چیف جسٹس کا سلمان اسلم بٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا آپ کے مطابق عمران خان کے کنٹینرکے اطراف میں جمیرز نہیں تھے، عمران خان اور وکلا بابر اعوان اور فیصل چوہدری نے جواب جمع کروایا ہے، سپریم کورٹ اس بارے میں بھی محتاط ہے کہ ہمارے احکامات کی خلاف ورزی نہ ہو، ، عمران خان نے تفصیلی جواب جمع کرایا ہے، امید ہے عمران خان نے درست اور حقائق پر مبنی جواب جمع کرایا ہو گا، ہم فی الحال کوئی حکم جاری نہیں کر رہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا آپ کی دلیل ہےکہ عدالتی حکم نامہ میڈیا اور پھر سوشل میڈیا کے ذریعے پورے ملک تک پھیل چکا تھا۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ مجھے یاد ہے ہم نے آئی جی کو طلب کیا تھا، آئی جی نے کہا وقت کم ہے ہم سکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی نہیں کروا سکتے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کا عدالت میں کہنا تھا پی ٹی آئی لانگ مارچ لے کر آ رہی ہے، عدالت سے استدعا ہے کہ پی ٹی آئی کو پرامن رہنے کی ہدایت کریں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے اسی کیس کی گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھا؟ ہمارے ایک جج جسٹس یحییٰ آفریدی نے گزشتہ آرڈر سے اختلاف کیا ہے، عمران خان کے وکیل کو ہدایت کر دیتے ہیں کہ اپنے مؤکل سے پرامن رہنے کا کہہ دیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا میرے پاس اس معاملے پر مؤکل کی ہدایات نہیں ہیں، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا آپ امید کرتے ہیں کہ آپ کے مؤکل عمران خان قانون کی خلاف ورزی کریں گے؟ کیس کو جذباتی ہو کر نہیں پرسکون ہوکر سننا چاہتے ہیں۔
عدالت نے عمران خان کو وزارت داخلہ کے شواہد پر جواب دینےکا وقت دیتے ہوئےکیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔