یہ بات کسی مفروضے کی بنیاد پر نہیں کہی جارہی اور نا ہی کسی خوش فہمی کا نتیجہ ہے یہ بات اس تیاری کی ہے جو پاکستان نے گزشتہ دو ایک ماہ میں کی ہے، جی ہاں اسے خوش قسمتی کہیے یا حسن اتفاق کہ پاکستان آئی سی سی کے ایک بڑے ایونٹ چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی ایک ایسے وقت میں کر رہا ہے جب یہ ٹیم دنیا کی نمبر ون ون ڈے ٹیم بن چکی ہے جس کا ثبوت 22 سال بعد آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں شکست دینا ہے۔ محسن نقوی کی ولولہ نگیز قیادت کی بدولت آج پاکستانی ٹیم کو ون۔ ڈے کے لیے دنیا کی خطرناک ٹیم تصور کیا جارہا، اس ٹیم کو کرکٹ بورڈ کو وہ اعتماد حاصل ہے جو اس سے پہلے کسی دوسری ٹیم کو حاصل نہیں رہا ٹیم کو اس طرح سے ترتیب دینے میں کرکٹ بورڈ کی بہترین حکمت عملی شامل ہے اور اگر دوسرے لفظوں میں کہیں تو ٹیم سے سٹر ازم کو ختم کرکے اس گندی سیاست کو ختم کردیا گیا ہے جس کے باعث ٹیم میں اقتدار کی کھینچا تانی کی جاتی تھی ۔
جی ہاں اقتدار کی کھینچا تانی یہی تو تھی کہ جس کے باعث کبھی ٹیم کا کپتان بابر اعظم کو بنایا جاتا اور کبھی سربراہی کا سہرا شاہین آفریدی کے سر سجتا، سابق کر کٹر بھی دو گروپس میں تقسیم ہوگئے، لاہور کراچی کی سیاست صحافت میں بھی نظر آنے لگی۔ تجزیہ کار اور کالم نگار بھی بٹ گئے کوئی شاہین آفریدی کے نام کا جھنڈا اٹھا کر اس کے گن گاتا اور کوئی بابر اعظم کے ترانے گاتا اور یوں ٹیم کے اندر اور باہر تقسیم در تقسیم ک عمل شروع ہوگیا۔ ایک نا رکنے والا ایسا عمل جس نے پاکستانی ٹیم کو جو صلاحیتوں میں پہلے دوسرے نمبر کی ٹیم تھی کو پوائنٹ ٹیبل پر پانچویں چھٹے نمبر پر لا کھڑا کیا . پاکستان ٹیم میں شامل بابر اعظم کی پرفارمنس اچھی نظر آتی ہے جس کے باعث بابر اعظم کپتانی میں نمبر ون بھی رہے ہیں شاہین شاہ آفریدی کو ابھی کھیلے کچھ عرصہ دراز ہوا ہے جس کے باعث شاہین شاہ آفریدی ناکامیاب رہے ہیں، شاہین شاہ آفریدی پی ایس ایل میں دو میچز میں لاہور قلندر کو فتح دلوا سکے ہیں لیکن بات کا تسلسل یہاں تک رہتا ہے کہ شاہین شاہ آفریدی ڈومیسٹک میں تو اچھی پرفارمنس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن نیشنل میچز میں ان کی پرفارمنس ڈاؤن ہوتی نظر اتی آتی ہے، ابھی حال ہی میں کھیلا جانے والا میچ پاکستان بل مکابل اسٹریلیا کی درمیان او ڈی ائی میں بابر اعظم کو کپتان نہ رکھا گیا بلکہ لاہور اور کراچی کے درمیان کسی بھی قسم کی سیاسی بحث اور اختلاف نہ بنے، اس لیے محسن نقوی کی سٹریٹجی یہ رہی کہ پاکستان ٹیم کا کپتان محمد رضوان کو بنایا جائے تاکہ پاکستان ٹیم کا مورال ڈاؤن نہ ہو اور کپتان محمد رضوان اچھی اور اچھی پرفارمنس دے آپ نے دو ون ڈے میں دیکھا کہ محمد رضوان نے اچھی کارکردگی دکھائی اسی لیے آسٹریلیا نے اپنے ہی ہوم گراؤنڈ میں شکست کھائی ۔
ضرورپڑھیں:جناب جسٹس شاہد کریم صاحب ،ہمیں قاتل درخت سے بچالیں
محمد رضوان ملتان سلطان کی کپتانی کر چکے ہیں اور ملتان سلطان پی پی ایس ایل میچ بہت اچھے مارجن سے جیت چکی ہے اسی طرح محمد رضوان ٹیسٹ کیپٹن بھی رہے ہیں جس کی بدولت پاکستان ٹیم ٹیسٹ میچ میں بہت اچھا کردار ادا کرتی ہے۔ محمد رضوان ایک اچھے کپتان ثابت ہوئے ہیں۔ محسن نقوی چیئرمین پی سی بی کی یہ حکمت عملی بہت اچھی رہی ہے، بات کی جائے ٹی ٹوئنٹی میچز کی جو آسٹریلیا میں کھیلی گئی اور پاکستان یہ ٹی ٹوئنٹی سیریز ہار گیا تو ذہن میں یہ بات رکھیں کہ چیمپئنز ٹرافی 50 اوور کا کھیل ہے 20 اوور کا نہیں اورانہیں پچز پر محمد رضوان نے 22 سال بعد ون ڈے سیریز میں کامیابی حاصل اگر پہلے دو ٹی ٹوئنٹی میچز کی بات کی جائے تو پہلا میچ بارش کے باعث 7 اوورز پر محدود ہوا اور دوسرے میچ میں ڈراپ کیچز شکست کی وجہ بنے اگر حارث روف اور عباس آفریدی کی سلو گھومتی گیندوں پر آسان کیچ پکڑ لیے جاتے تو نتیجہ کچھ کا کچھ ہوتا لیکن ٹیم میں کچھ اچھے پلیئرز بھی شامل ہیں اس میں حارث روف محمد عباس محمد سفیان اچھے بالر ثابت ہوئے بیٹسمین میں بیٹنگ میں محمد عثمان ، عرفان خان اچھے بیٹسمین ثابت ہوئے، حارث روف 4 اووروں میں 22 رن لے کے 4 وکٹیں دی محمد عباس آفریدی نے بہت عمدہ بولنگ کی جس نے دیکھا گیا کہ عباس فریدی نے آسٹریلین بیٹسمین کو شارٹ پچ بالز بھی کی سلو ڈلیوری بھی کی تاکہ اسٹریلین بیٹسمین اپنے پاؤں پہ کھڑے نہ ہو سکیں جس کی بدولت پاکستان کے لیے انہوں نے 17 رن دے کر 3 وکٹیں لیں سفیان مکین جن کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے نے بھی پاکستان کی طرف سے نمایاں کارکردگی ادا کی ٹی ٹونٹی میں نہ صرف بلکہ او ڈی آئی میں بھی وہ اچھا پرفارمنس ادا کر سکتے ہیں، 2 وکٹیں لے کر 21 رن دیے، بات کا آغاز کیا جائے بیٹنگ سے تو فخر زمان کی کمی بھی محسوس ہوئی، پلینگ 11 میں جس کے پاکستان شکست کا باعث بنا محمد رضوان نے اوپننگ بابر اعظم سے کرائی جو پرانی اوپن پارٹنرشپ تھی ببیٹسمین میں شامل عثمان خان 38 بالیں کھیل کے 52 رنز بنا گئے۔ محمد عثمان کی بیٹنگ پرفارمنس اس قدر اچھی تھی کہ پاکستان کامیابی کے قریب پہنچ گیا تھا کا تاج کامیابی کا تاج سجا لیتا ، لیکن محمد رضوان کی پارٹنرشپ نہ چل سکی اسی کے ساتھ عرفان خان 28 بالوں میں 37 رن کیے بات یہاں تک ختم نہ ہوئی جب پانچ اہم کیچ چھوڑے گئے جس کی وجہ سے پاکستان کو نا کامیابی ہوئی اپنے سر سجانا پڑا ۔دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان چیمپینز ٹرافی میں پاکستان اپنے ہوم گراؤنڈ میں کیا کر سکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی بھی ٹیم کے لیے یہ سب سے بڑا ایڈوانٹیج ہوتا ہے کہ وہ اپنی ہوم گراونڈ کراؤڈ اور مرضی کی پچز پر کھیلے اور پاکستان اپنی وکٹوں پر اس وقت بھی دنیا کی سب سے خطرناک ٹیم ہے ۔
نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر
بلاگرنجی یونیورسٹی سے ایم ایس سی ماس کمیونیکیشن کرنے کے بعدسپورٹس کی فری لانس جرنلزم کررہے ہیں۔