وفاقی شرعی عدالت نے وی پی این کے استعمال کو غیر قانونی قرار دیا جس کے بعد دجالی میڈیا لٹھ لیکر شریعت اور اسلام کے خلاف چڑھ دوڑا، خود کو ماڈرن( انتہا پسند ) سمجھنے والوں کے ہاتھ تو جیسے اسلام اور اس کے محافظوں کے خلاف ہزیان بکنے کا کوئی بہانہ آگیا ہو جسے دیکھیں عالم دین اور مولویوں کی تضحیک کرتا نظر آیا اور یہ کہا جانے لگا کہ مولوی دقیانوسی سوچ کے عکاس ہیں ، یہ فیصلہ بلکل ایسا نا تھا جیسا اسے پیش کیا جارہا ہے ، یہ دجالی چکر بازوں نے سوشل میڈیا پر کچھ ایسے افراد کو مطمئن کر رکھا ہے جو ظاہر میں تو پڑھے لکھے محسوس ہوتے ہیں جیسا کہ عرب کا سب سے پڑھا لکھا شخص ابو جہل تھا لیکن اسے یہ لقب ملا اور اب تو اسی ابوجہل کے باپ پیدا ہوچکے ہیں جو بات کو ایسے توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہین کہ بندہ چکرا جاتا ہے اور کچھ ایسا ہی اس فیصلے بارے بھی ہوا ، وفاقی شریعت کورٹ کے سامنے سوال یہ رکھا گیا تھا کہ حکومت نے اسلامی اقدار اور غیر اسلامی پراپیگنڈے ، فرقہ واریت اور اخلاق باختہ سائٹس کو روکنے کے لیے چند سائٹس پر پابندی عائد کر رکھی ہے تو کیا ایسے میں وی پی این استعمال کرنا جائز ہے َ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں کیا اس کا جواب یہ ہونا چاہیے تھا کہ جائز ہے ، نہیں جائز یہی جواب ہونا چاہیے تھانا اور یہی جواب دیا بھی گیا جسے ایسے پیش کیا گیا کہ جیسے اسلامی شرعی کورٹ نے اس پر پابندی لگا دی ہو ۔
حکومت وی پی این کو رجسٹرڈ کرنا چاہتی ہے جس کے بعد یہ استعمال تو ہوسکے گی لیکن حکومت کے اُس اجازت نامے کے ساتھ کہ کون سی سائت چلے گی اور کون سی نہیں وی پی این ہے کیا ؟ اس کی ضرورت اُس وقت محسوس کی گئی جب انٹرنیٹ کے ذریعے ڈیٹا کو محفوظ طریقے سے بھیجنے اور وصول کرنے کے لیے ایک محفوظ طریقہ درکار ہوا۔ وی پی این کا بنیادی مقصد صارفین کی پرائیویسی اور سیکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔ یہ انٹرنیٹ ڈیٹا کو انکرپٹ کرتا ہے تاکہ اسے ہیکرز، سائبر کرائمز یا حکومتی نگرانی سے بچایا جا سکے۔ اس کے علاوہ، وی پی این کا استعمال جیوفینسنگ کو بائی پاس کرنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے، تاکہ مختلف ممالک میں بلاک شدہ ویب سائٹس یا خدمات تک رسائی حاصل کی جا سکے تاہم، کئی ممالک میں وی پی این پر پابندیاں عائد ہیں جہاں حکومتیں انٹرنیٹ پر مکمل کنٹرول چاہتی ہیں یا معلومات کے بہاؤ کو محدود رکھنا چاہتی ہیں۔ ان میں چین، روس، ایران، متحدہ عرب امارات، شمالی کوریا اور عمان جیسے ممالک شامل ہیں۔ ان ممالک میں وی پی این پر پابندی عام طور پر انٹرنیٹ کنٹرول اور سیاسی بیانیے کو برقرار رکھنے کے لیے لگائی جاتی ہے۔ اس کے باوجود، دنیا کے کئی ممالک میں وی پی این قانونی ہیں اور لوگ اسے اپنی پرائیویسی کے تحفظ یا محفوظ انٹرنیٹ استعمال کے لیے بآسانی استعمال کر سکتے ہیں۔
ضرورپڑھیں:پاکستان چیمپئنز ٹرافی کا فاتح ہوگا، لکھ لیں
وی پی این ( ورچوئل پرائویٹ نیٹ ورک ) ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو صارفین کو ان کی آن لائن سرگرمیوں کو محفوظ اور گمنام رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں اس کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ غلط استعمال کے کئی مسائل بھی سامنے آئے ہیں جنہوں نے معاشرتی اور قانونی پیچیدگیاں پیدا کی ہیں۔ وی پی این کے استعمال کا بنیادی مقصد پرائیویسی کو برقرار رکھنا اور ڈیٹا کو محفوظ بنانا ہے، اور یہ تحقیق، تعلیمی سرگرمیوں اور بین الاقوامی کاروبار میں بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ تاہم، بعض افراد وی پی این کا استعمال غیر اخلاقی مواد تک رسائی، آن لائن جرائم، اور غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے کرتے ہیں، جو نہ صرف ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ اسلامی تعلیمات کے بھی منافی ہے۔
شریعت کورٹ نے وی پی این کے استعمال کے حوالے سے دو پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ اگر یہ ٹیکنالوجی مثبت اور جائز مقاصد کے لیے استعمال کی جائے، تو یہ قابل قبول ہے اور وقت کی ضرورت ہے لیکن اگر اس کا استعمال غیر اخلاقی یا غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے کیا جائے، تو یہ شرعی لحاظ سے ممنوع اور قابل سزا ہے۔ حکومت پاکستان نے وی پی این کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، جن میں رجسٹریشن کا نظام، عوامی آگاہی مہمات، اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی شامل ہیں۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق، ہر وہ عمل جو معاشرتی خرابی یا گناہ کا باعث بنے، ممنوع ہے۔ وی پی این کا استعمال بھی اسی اصول کے تحت ہے۔ اگر اس کا مقصد تعلیمی، تحقیقی، یا کاروباری ترقی ہو، تو یہ اسلامی اصولوں سے متصادم نہیں ہے لیکن اگر اس کا استعمال غیر اخلاقی یا غیر قانونی مقاصد کے لیے کیا جائے، تو یہ گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ وی پی این ایک مفید ٹیکنالوجی ہے لیکن اس کے غلط استعمال سے معاشرے میں سنگین مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہمیں بطور ذمہ دار شہری اسلامی اصولوں اور ملکی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے اس کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ یہ ہمارے لیے ترقی کا ذریعہ بن سکے، نہ کہ خرابی کا باعث۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر