شاہ زیب قتل کیس: کب کیا ہوا؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک) پاکستان کی سپریم کورٹ نے 10 برس قبل کراچی میں شاہ زیب نامی نوجوان کے قتل کے مقدمے میں مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت تمام ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے انھیں مقدمے سے بری کر دیا ہے۔
قتل کا یہ واقعہ 24 دسمبر 2012ء کی شب کراچی میں ڈیفنس کے علاقے میں پیش آیا تھا جہاں شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں نے تلخ کلامی کے بعد فائرنگ کر کے شاہ زیب کو قتل کر دیا تھا۔ اس مقدمے میں ٹرائل کورٹ نے شاہ رخ اور ان کے ساتھی سراج تالپور کو سزائے موت جبکہ دیگر دو مجرموں سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
2019ء میں سندھ ہائی کورٹ نے ہی شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی جانب سے دائر بریت کی اپیل مسترد کر دی تھی تاہم ان کی سزائے موت کو عمرقید میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں دیگر دو مجرموں سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کی عمر قید کی سزا برقرار رکھی تھی۔ سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف مجرمان کی جانب سے سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی تھی اور جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس اپیل پر منگل کو فیصلہ سنایا۔
سماعت کے دوران مجرمان کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ قتل کے واقعے کو دہشتگردی کا رنگ دیا گیا اور ملزمان کا دہشت پھیلانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ انھوں نے کہا کہ فریقین کے درمیان صلح ہو چکی ہے اور صلح نامے کی بنیاد پر تمام مجرمان کو بری کیا جانا چاہیئے۔
یہ بھی پڑھیے: شاہ زیب قتل کیس، شاہ رخ جتوئی سپریم کورٹ کی جانب سے بری
لطیف کھوسہ کے مطابق جو مقدمہ بنایا گیا اس میں کوئی دہشتگردی کا عنصر نہیں تھا اور اسی وجہ سے سپریم کورٹ نے انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ سات میں درج عمر قید کی سزا کو کالعدم کرتے ہوئے انھیں بری کر دیا ہے۔
شاہ زیب خان قتل کیس کی ایف آئی آر کے مطابق بڑی بہن کے ولیمے سے واپسی پر فلیٹ کے نیچے شاہ زیب خان کی بہن سے مرتضیٰ لاشاری نے بدتمیزی کی جس کے بعد فریقین میں تلخ کلامی ہوئی اور فائرنگ کے نتیجے میں شاہ زیب خان مارے گئے۔ اس مقدمے میں شاہ رخ جتوئی، ان کے دوست نواب سراج تالپور، سجاد تالپور اور ان کے ملازم غلام مرتضیٰ لاشاری کو نامزد کیا گیا تھا۔ ملزمان کی گرفتاری کے عمل میں نہ آنے کے بعد کراچی کے سماجی کارکنان کی جانب سے سوشل میڈیا پر ’جسٹس فار شاہ زیب خان‘ کے نام سے مہم چلائی گئی جبکہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی اس کا از خود نوٹس لیا تھا جس کے بعد مفرور شاہ رخ جتوئی کو دبئی، نواب سراج تالپور کو نوشہرو فیروز اور دیگر ملزمان کو سندھ کے دیگر علاقوں سے گرفتار کیا گیا تھا۔
جون 2013 میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی سمیت دو ملزمان کو سزائے موت جبکہ دو کو عمر قید کی سزا دینے کا حکم دیا تھا۔ بعدازاں سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے مقدمے سے انسداد دہشت گردی کی دفعات ختم کر کے ماتحت عدالت کو مقدمے کی دوبارہ سماعت کی ہدایت کی تھی۔