پی ٹی آئی کا آج پھر احتجاج،ایجنڈا کیا ہے؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)اب تحریک انصاف نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور آئینی ترامیم کیخلاف کل ملک گیر احتجاج کی کال دی ہے ۔اب ایسے وقت میں جب پارٹی کے اندر اختلافات کی دراڑیں گہری ہورہی ہیں ایسے میں تحریک انصاف کے احتجاج کی کال پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے۔اب حکومت تو یہ الزام لگا رہی ہے کہ تحریک انصاف آئینی ترامیم کی منظوری کو روکنے کیلئے ریاست کو داؤ پر لگانا چاہتی ہے ۔جبکہ وزیر اعلی علی امین گنڈاپور کہتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی اور گرفتار کارکنان کی رہائی کیلئے بھرپور احتجاج کریں گے۔اور ایک غیر آئینی ترامیم کی جارہی ہے اس کے خلاف بھی آواز اٹھائیں گے،پھر اِسی طرح سابق صدر عارف علوی کہتے ہیں کہ ہم کل اِس لئے احتجاج کرنے جارہے ہیں کیونکہ یہ لوگ 26 ویں آئینی ترامیم کے ذریعے آزاد عدلیہ کو قبضے میں کرنے جارہے ہیں ۔
پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ اب علی امین گنڈا پور کے سیاسی کردار کو تو پہلے ہی مشکوک نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔حماد اطہر نے بھی سیاسی کمیٹی کے ایک اجلاس میں اُنہیں اُن کے ڈی چوک سے اچانک لاپتہ ہونے پر طعنہ بھی دیا تھا ۔اور یہ حقیقت ہے کہ علی امین گنڈاپور ہر جلسے میں پر اسرار طور پر غائب ہوتے رہے ہیں ۔ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا اب علی امین گنڈاپور احتجاج کے پورے وقت موجود رہیں گے یا پھر سے غائب ہوجائیں گے ۔ بہرحال تحریک انصاف کا جلسہ یا احتجاج کامیاب نہ ہونے کی بڑی وجہ پارٹی میں لیڈر شپ کا فقدان ہے ۔اور پارٹی کئی گروپس میں تقسیم ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ پارٹی میں احتجاج اور جلسے کو لے کر غیر سنجیدگی پائی جارہی ہے ۔جس کی نشاندہی فواد چوہدری کرتے ہوئےکہہ رہے ہیں کہ احتجاج میں لوگ تب شامل ہوں گے جب موجودہ لیڈر شپ آگے ہوگی۔
اب پارٹی کارکنوں کی اکثریت اپنی قیادت کی جانب سے دی جانے والی احتجاج کی کالوں کے طریقہ کار اور پھر انہیں منسوخ کرنے کے انداز سے نالاں اور مایوس نظر آتی ہے، صورتحال یہ ہے کہ انفرادی طور پر طاقتور افراد کی سربراہی میں مختلف دھڑے بن چکے ہیں۔مثال کے طور پر جب علی امین گنڈا پور نے مشکلات کے باوجود مظاہرین کے ایک کارواں کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کا رخ کیا تو پارٹی کے خیبر پختونخوا کے دھڑے کو اسی جذبے کا مظاہرہ نہ کرنے پر پنجاب میں موجود اپنے ساتھیوں پر تنقید کرتے دیکھا گیا۔اسی طرح،حکومت کی جانب سے اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت دینے سے ابتدائی انکار کے سبب پنجاب کے دھڑے نے سب سے پہلے 15 اکتوبر کو ایس سی او کے اجلاس کے موقع پر احتجاج کا اعلان کیا تھا۔پنجاب میں بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اسی دھمکی نے حکومت کو اپنا لب و لہجہ نرم کرنے پر مجبور کیا اور یہی موقع تھا جب قیادت اپنے مطالبات کو حکومت سے منوا سکتی تھی ۔لیکن پھر پارٹی اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی اور نے بانی پی ٹی آئی کی ڈاکٹرز اور خاندان کے افراد سے ملاقاتیں کرانے میں ناکام رہی۔اب یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ پی ٹی آئی اندورنی اختلافات کا شکار ہے اور ،پارٹی پر مختلف دھڑوں کا قبضہ ہے جو اپنی اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنا چاہتا ہے۔اور اِس سب میں تحریک انصاف اپنی کوئی بھی سیاسی ایکٹیویٹی مؤثر بنانے میں اب تک ناکام نظر آرہی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اِن چیلنجز کے باوجود کیا آج تحریک انصاف مؤثر احتجاج کرسکے گی یا نہیں ؟