قاضی بچ گیا ،مولانا پی ٹی آئی سے ہاتھ کرگئے
عامر رضا خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
آپ نے کبھی ایکشن اور سسپنس سے بھرپور فلم دیکھی ہے ، ایسی فلم جس میں آخر تک یہ علم نہیں ہوپاتا ہے کہ جو جرم یا کرم ہوا اُس کا اصل ذمہ دار کون ہے ،فلم میں یاسے ایسے موڑ آتے ہیں کہ انسان "انگشت بدنداں" ہوجاتا ہے یعنی اپنی انگلیاں منہ میں ڈال لیتا ہے دوست نظر آنے والا کبھی دشمن نظر آتا ہے اور دشمن نظر آنے والا ہمدرد بن جاتا ہے یہ سب رائیٹر کا کمال ہوتا ہے کہ وہ دیکھنے والوں کو یونہی گھماتا رہتا ہے، سسپنس آخر تک قائم رہتا ہے لیکن پھر نتیجہ وہی ہوتا ہے جو منظورِ رائٹر ہوتا ہے ۔
اب آئیے بدنام زمانہ 26 ویں آئینی ترمیم پر جس نے ایک ماہ سے پوری قوم کو ہیجان اور سیاستدانوں کو امتحان میں مبتلا کر رکھا ہے اس آئینی ترمیم میں کون سا جن بند تھا جسے پاکستان تحریک انصاف مولانا فضل الرحمان کے وظیفوں سے قید کرانا چاہتی تھی اور کیا وہ اس میں کامیاب ہوئی ؟ یہ ہے آج کا موضوع لیکن اُس سے پہلے یہ بات کہ سسپنس فلم کی طرح آج جب اس ترمیم کا بھی ترمیم شدہ مسودہ سامنے آیا ہے سے قبل کیا کچھ ہوتا رہا ترمیم کیا تھی اس کے عدالتی اصلاحات پر سب سے زیادہ شور اُٹھا۔ اپوزیشن کی جانب سے بتایا گیا کہ یہ ترمیم دو افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے منظور کرائی جارہی ہے ایک ہیں قاضی فیض عیسیٰ اور دوسرے آرمی چیف حافظ عاصم منیر پی ٹی آئی آئی کے پراپیگنڈا سیل نے اس ترمیم کو لیکر ان دو شخصیات کو لیکر جس قدر پراپگنڈا کیا جاسکتا تھا کیا اسمبلی کا فلور ، سوشل میڈیائی سپیس ، ٹیلی ویژن سکرینز اور اخبارات کوئی میڈیم نا چھوڑا گیا سب جگہ ایک ہی دھوم مچائی گئی یہ وہ دن تھے جب پوری پی ٹی آئی بلوچستان کے سیاستدان محمود اچکزئی کے گرد جمع ہوگئی سب کو ایسا لگنے لگا کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا استعارہ لیکر محمود اچکزئی پی ٹی آئی کی ڈوبتی ناو کو پار لگائے گی قیدی نمبر 804 نے بھی محمود اچکزئی کو با اختیار قرار دے دیا لیکن جب بات بنتی نظر نا آئی تو یو ٹرن کی بادشاہ اس جماعت نے ایک برا یو ٹرن لیا اور بلوچستان سے نکل کر ڈیرہ اسماعیل خان میں گھٹنے ٹیک دئیے اس بار آستانہ عالیہ مولانا فضل الرحمان کا تھا اب محمود اچکزئی کو سب بھول گئے نا کوئی مزاکرات نا محمود اچکزئی پر اعتماد ، رائیٹر جیسے چاہ رہا تھا کہانی کا رُخ موڑ رہا تھا، اب معاملہ اٹھا تو مولانا فضل الرخمان کی دھوا دور اینٹری ہوئی انہوں نے آتے ہی سب سے پہلے بظاہر حکومتی مسودہ یکسر نا منطور کردیا بات اور پکی ہوگئی عدالتی اصلاحات ، سرکاری ملازموں کی مدتِ معیاد گو وہ سب کچھ جو اس ترمیم میں شامل تھا مسترد کردیا گیا فلم میں یہ سسپنس مزید بڑھنا شروع ہوا تمام شائقین متوجہ تھے اب سرکاری اینٹریاں شروع ہوئیں کبھی وزیر داخلہ مولانا کے گھر پہنچے تو کبھی بلاول بھٹو زرداری ، مختلف اوقات میں مختلف وزیر مولانا کے اسلام آباد میں پڑے شاہانہ تحت نما صوفوں پر براجمان بیٹھے دکھائی دئیے وزیر اعظم شہباز شریف بھی دیکھے گئے رائٹر مولانا کے کردار کواور بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا تھا یوں نطر آتا تھا کہ چند سیٹوں کے حامل مولانا پاکستانی سیاست کے محور بن گئے ہیں، یہ شائقین کے لیے انگلیاں دانتوں میں دبا لینے جیسا ماحول تھا۔ بلاول مختلف شہروں میں وکلاء سے اپنے خطاب میں اس عزم کا اظہار کر رہے تھے کہ آئینی عدالتیں میثاق جمہوریت کا غیر مکمل ایجنڈا ہے پیپلز پارٹی اپنی قائد محترمہ بے نظیر کے کیے گئے وعدے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
ضرورپڑھیں:نواز شریف کی سیاست تباہ دے ، آئینی ترمیم تو وڑ گئی
یہ باتیں مولانا کی اہمیت کو بڑھاوا دے رہی تھیں ، بیرسٹر گوہر کی پی ٹی آئی جو اپنا مسیحا و امام مولانا کو مان چکی تھی اُن کے پیچھے نماز پڑھتی نظر آئی ، حکومت کو بھی کوئی جلدی نہیں تھی اس لیے ایک کے بعد ایک فارمولہ سامنے آتا گیا معاملہ سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت سے نکل کر آئینی عدالتوں تک آیا اور اسی دوران بلاول بھٹو جنہوں نے پیچھے نہیں ہٹنا تھا پیچھے ہٹتے اور نیا فارمولا لاتے نظر آئے مولانا بھی سرکاری مدت ملازمت سے ایسے نکلے جیسے مکھن سے بال انہوں نے انسانی حقوق اور آئینی عدالتوں تک خود کو محدود کیا اور ایک نئے فارمولے پر پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی سے مذاکرات شروع کیے مولانا حکومتی ترمیم کو غلط اور بلاول کی ترمیم شدہ تجویز کو بہتر آپشن قرار دینے لگے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بھی یہ بیان دیا کہ جو مولانا کہیں گے ہم وہ کریں گے ، مصنف کو اور کیا چاہیے تھا، اُس نے اگلی قسط کے لیے نواز شریف کے عشائیے کا اہتمام کرایا سب کا سب سے ہاتھ ملوایا اور یوں آئینی ترمیم میں ایک چھوٹی سی ترمیم کرکے سب کے لیے قابل قبول بنوایا ۔
کیوں مزا آیا نا ؟ وہی ترمیم ہے، وہی مہرے وہی انجام، سب کچھ اتفاق رائے سے ہوگیا! صرف آئینی عدالت کا نام آئینی بنچ رکھ دیا گیا، کان کو ادھر سے نہ سہی اُدھر سے پکڑ لیا گیا ، اب اختیار چیف جسٹس سپریم کورٹ سے نکال کر ایک ایسے کمیشن کے پاس چلا جائے گا جس میں پارلیمنٹیرین بھی ہوں گے بس یاد رکھیں معاملہ مدت ملازمت والا تھا معاملہ ڈویژن بنچ تک لاکر منظور کرلیا گیا پی ٹی آئی والے اب قاضی اور آرمی چیف کی مدت ملازمت پر بول نہیں پائیں گے۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر