یکم جنوری 2028 تک سود کا خاتمہ کیا جائےگا، مجوزہ آئینی ترمیم
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک )مجوزہ آئینی ترامیم میں یکم جنوری 2028 تک ہر ممکن حد تک سود کے خاتمے کی تجویز سامنے آگئی ہے ۔
تفصیلات کے مطابق پارلیمان کی خصوصی کمیٹی میں منظور مسودے کی تفصیلات سامنے آگئی ہیں ، پارلیمان کی خصوصی کمیٹی میں منظور مسودےکے متن کے مطابق نئے آئینی ترمیمی مسودے میں آرٹیکل 38 میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے،متن کے مطابق جس حد تک ممکن ہوسکے یکم جنوری 2028 تک سود کا خاتمہ کیا جائےگا۔
اس کے علاوہ مسودے میں آرٹیکل 175 اے میں ترمیم تجویز کی گئی ہے جس کے متن کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کی تقرری خصوصی پارلیمانی کمیٹی کرے گی، خصوصی پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے 3 سینیئر ترین ججز میں سے ایک نامزد کرے گی۔
مسودے کے متن میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز کی تعیناتی کےلیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو ہوگی اور چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کے سربراہ ہوں گے، سپریم کورٹ کے 4 سینئر ترین ججزجوڈیشل کمیشن کے ارکان ہوں گے، جوڈیشل کمیشن میں وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کا ایک نمائندہ ہوگا۔
متن میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 2، 2 ارکان جوڈیشل کمیشن کے رکن ہوں گے، جوڈیشل کمیشن میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے حکومت اور اپوزیشن کا ایک ایک نمائندہ لیا جائےگا۔
مسودے کے متن کے مطابق ججز تعیناتی کے کمیشن میں ایک خاتون یا غیرمسلم رکن ہوں گے، یہ خاتون یاغیرمسلم سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کا الیکشن لڑنے کے اہل ہونے چاہئیں، ایسی خاتون یا غیرمسلم کی بطور رکن تقرری چیئرمین سینیٹ کریں گے۔
متن میں کہا گیا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم صدر مملکت کو بھجوائیں گے، کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا اور چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال ہوگی۔
چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر کرنے کی تجویز ہے،مجوزہ 26 ویں آئینی ترمیم کے نئے مسودے میں 26 ترامیم شامل ہیں۔ نئے مسودے میں ایک بار پھر آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا اور آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے۔
متن کے مطابق آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا، آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔