سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر براہ راست سماعت
Stay tuned with 24 News HD Android App
(امانت گشکوری) ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی جارہی ہے۔
سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہورہی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے عدالتی دن پر فل کورٹ کی سربراہی کررہے ہیں، سپریم کورٹ کے 15 ججز پر مشتمل فل کورٹ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت کررہا ہے،جسٹس سردار طارق محمود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی ،جسٹس امین مندو خیل،جسٹس مظہر علی اکبر ،جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس علی مظہر ،جسٹس عائشہ ملک ،جسٹس اطہر من اللہ،جسٹس سید حسام اظہر رضوی ،جسٹس شاہد وحید ،جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر 13 اپریل کو عملدرآمد روکا تھا،سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ مفاد عامہ کے مقدمات میں چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کرنے سے متعلق ہے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق ازخود نوٹس لینے کا فیصلہ چیف جسٹس اور دو سینئیر پر مشتمل کمیٹی کر سکے گی،سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کی سماعت براہ راست نشر کی جارہی ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رواں برس اپریل میں کسی بھی آئینی مقدمے کے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ نہیں ہوتا وہ کسی بینچ کا حصہ نہیں بنیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے دوران خواجہ طارق کو کہا کہ مناسب ہوگا پہلے قانون پڑھ لیں پھر سوالات کے جواب دیں، خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پہلے جسٹس عائشہ ملک کے سوال کا جواب دینا چاہوں گا، چیف جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ آپ چیلنج کیا گیا قانون پڑھنا چاہتے ہیں یا نہیں؟وکیل درخواست گزار نے قانون پڑھتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنارکھے تھے، پارلمینٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی،جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ طارق سے کہا کہ خواجہ صاحب جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اس کو سپورٹ کرتے ہیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ خواجہ صاحب اپنے کسی معاون کو کہیں کہ سوالات نوٹ کریں،اپ کو فوری طور پر جواب دینے کی ضرورت نہیں،اپنے دلائل کے آخر میں سب سوالات کے جواب دے دیں، آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں ، خواجہ صاحب اپنے دلائل مرتب کریں ہر سوال کا جواب فوری مت دیں،جب سوالات سمجھ لیں تو ایک ہی بار جواب دیجیے گا،۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کے شیڈول فور کے مطابق سپریم کورٹ اپنے ضوابط خود بناتی ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار آئین میں دیا گیا یا قانون میں؟ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میں سوالات نوٹ کر رہا ہوں جواب بعد میں دوں گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ خواجہ صاحب آئینی شقوں کو صرف پڑھیں تشریح نہ کریں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا؟چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ جو ادھر ادھر کی باتیں کر رہے اس پر الگ درخواست لے آئیں،ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سپریم کورٹ کے اختیارات اور طاقت کا ذکر قانون میں نہیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا اپنا اختیار ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرے،کیا آپ کے مطابق سپریم کورٹ رولز 1980 آئین سے متصادم ہیں،مستقبل کی بات نہ کریں دلائل کو حال تک محدود رکھیں، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 جوڈیشل پاور سے متعلق ہے،اس قانون سے عدالت کو اپنے اختیارات استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی،عدالتی اختیارات کا فیصلہ کس نے کرنا ہے؟میرے مطابق پارلیمنٹ عدالتی اختیارات میں مداخلت کر رہی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ خواجہ طارق رحیم صاحب آپ بار بار میں کا لفظ کیوں استعمال کر رہے،آپ درخواست گزار ہیں اور دیگر لوگ بھی اس کیس میں فریق ہیں،کیا آپکا اس کیس میں کوئی ذاتی مفاد ہے،خواجہ طارق رحیم صاحب اس کیس میں عدلیہ سے جڑا کونسا عوامی مفاد ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بنچ کی تشکیل سے متعلق کمیٹی بنانے کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی،کیا پارلیمان عدالتی انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بناسکتی ہے؟کیا پارلیمان نئے اختیارات دیکر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور کو پس پشت ڈال سکتی ہے،جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ خواجہ صاحب کیا آپ کو قبول ہے کہ ایک بندہ بنچ بنائے، پارلیمان نے اسی چیز کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔