(امانت گشکوری)چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کیخلاف کیس میں کہاہے کہ اٹارنی جنرل نے بیرون ملک جانا ہے،بنچز کی تشکیل سے متعلق دونوں سینئر ججز سے مشاورت کی،دونوں سینئر ججز سردار طارق اور اعجاز الاحسن نے مجھ سے اتفاق کیا،اس ہفتے بنچز کی تشکیل اب میں کر سکوں گا،وکلا 25 ستمبر تک تحریری دلائل جمع کرا دیں۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سماعت کی،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ پہلا سوال یہ ہے کہ آئینی ترمیم کے بغیر اپیل کا حق کیسے دیا جا سکتا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ یہاں تو اپیل کا حق دیا جا رہا ہے،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ پھر دوسری تیسری اور چوتھی اپیل کیوں نہیں ہو سکتی،پھر ہائیکورٹ سے آنے والوں کو بھی اپیل کا حق دے دیں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آج جو ہم تحفظات دکھا رہے ہیں وہ تو پہلے دکھانا چاہئے تھے۔
جسٹس منیب اختر نے کہاکہ وفاقی حکومت کو تو فل کورٹ کا کہنا ہی نہیں چاہیے تھا،کیا پارلیمان نے فیصلہ کرلیا کہ سپریم کورٹ کی فل کورٹ کبھی بیٹھ ہی نہیں سکتی ؟چی جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ فل کورٹ فیصلے کیخلاف اپیل والے سوال پر کیا جواب دینگے؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ میری نظر میں فل کورٹ فیصلے کیخلاف اپیل کا حق نہیں ہوگا،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ اگر 9 رکنی بنچ 184/3 میں فیصلہ کرے تو اپیل کا حق تب کیسے برقرار رہے گا؟جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ اس طرح تو عدالت جب چاہے گی جس کا چاہے گی اپیل کا حق ختم کر دے گی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ اس حساب سے تو پہلے ہی دن آٹھ رکنی بنچ بھی یہ مقدمہ نہیں سن سکتا تھا،ہم ہر چیز میں ازخود نوٹس لیتے ہیں تو اپنے بارے قانون سازی پر کیوں نہیں لے سکتے تھے؟ پتہ نہیں خواجہ صاحب کو کیا مسئلہ ہوا کہ انہوں نے ایک درخواست ڈال دی، ذوالفقار بھٹو کیس میں نظرثانی کیس بھی انہی ججز نے سنا،ہماری انا اتنی بڑی نہیں ہونی چاہیے کہ غلطی نہ مانیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہاکہ کیا ہم سپریم کورٹ رولز کے پابند نہیں،سپریم کورٹ کیا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو ماننے کی پابند ہے،اپنے ہی رولز کے بجائے سپریم کورٹ ایکٹ آف پارلیمنٹ کا پابند بنایا جارہا ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ کیا میں 1980 کے رولز کا پابند ہوں؟رولز ہمیں گائیڈ کرنے کیلئے ہیں محدود کرنے کیلئے نہیں، ہم آئین،قانون اور پھر رولز کے پابند ہیں۔
جسٹس سردار طارق نے کہاکہ اگر ہم پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی توثیق کرتے ہیں تو عدالتی فیصلوں کا کیا ہوگا،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ماضی سے اس قانون کا اطلاق ہوا تو پھر کیا ہوگا،اٹارنی جنرل نے کہاکہ پاسٹ اینڈ کلوز ٹرانزیکشن کا اصول لاگو ہو سکتا ہے،جسٹس سردار طارق مسعود نے کہاکہ اس دوران جن کیسز کا فیصلہ ہوا ان کا کیا ہوگا؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت پہلے سے ختم ہوئے کیسز کو تحفظ دے سکتی ہے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کرتے ہیں پھر دیگر وکلا کو سنیں گے۔
جسٹس منیب اختر نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب بیسٹ آف لک آپ پاکستان کیلئے مقدمہ لڑنے جارہے ہیں،وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہاکہ مجھ سے 22 سوالات پوچھے گئے میں لکھ کر جواب دے دیتا ہوں،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا گیاکیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کرتے ہیں پھر دیگر وکلا کو سنیں گے،کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا گیا۔
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کے دوران وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہاکہ مجھے عدالتی سوالات کے جواب کیلئے 2 روز کی مہلت چاہیے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ باقی وکلا بتائیں کتنا وقت لیں گے،آئندہ سماعت پر تمام وکلا اسلام آباد میں پیش ہوں،چاہتے تھے آج کیس ختم کریں مگر ممکن نہیں،اس کیس میں دونوں سینئر ججز سے مشاورت کرتا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکمنامہ تحریر کروا دیا، سپریم کورٹ نے کہاکہ اٹارنی جنرل نے بیرون ملک جانا ہے،بنچز کی تشکیل سے متعلق دونوں سینئر ججز سے مشاورت کی،دونوں سینئر ججز سردار طارق اور اعجاز الاحسن نے مجھ سے اتفاق کیا،اس ہفتے بنچز کی تشکیل اب میں کر سکوں گا،وکلا 25 ستمبر تک تحریری دلائل جمع کرا دیں،وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہاکہ اگر آپ نے آپس میں ہی طریقہ کار طے کرنا ہے تو یہی تو میرا کیس ہے، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہم آپس میں مشاورت کر لیں گے کہ بنچز کیسے تشکیل دینے ہیں،کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کیس ؛ چیف جسٹس پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو کیس سے متعلق اہم ریمارکس