کاربن کریڈٹ کی سالانہ برآمدات سے پاکستان ایک ارب ڈالر کما سکتا ہے، ماہرین
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک)موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق قانون سازی کے باعث رضاکارانہ کاربن کریڈٹ مارکیٹ تیزی سے ابھر رہی ہے، پاکستان کاربن کریڈٹ کی برآمدات کرکے سالانہ ایک ارب ڈالر کی آمدنی حاصل کرسکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق کلائمٹ ایکشن سینٹر کے ڈائریکٹر یاسر، مجتبیٰ بیگ اور ماحولیات کی کنسلٹنٹ زویا تنیو نے کہا کہ دنیا کی ماحولیاتی آلودگی میں اگرچہ پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی کے سبب پاکستان کو سالانہ 4ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہورہا ہے۔
درجہ حرارت بڑھنے سے ماحول میں ناصرف زہریلی گیسز کی مقدار بڑھ جاتی ہے بلکہ اس سے گندم کپاس کی فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے جبکہ ایک انسان کے کام کرنے کی صلاحیت گھٹنے کے ساتھ عوام کی صحت کا بل بھی بڑھ جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ باغبانی اور زراعت کے ذریعے اگر ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضا سے جذب کرلیا جائے تو یہ ایک کاربن کریڈٹ ہوگا۔ پاکستان سے ایک کاربن کریڈٹ 10 سے 15ڈالر میں عالمی منڈی میں فروخت ہوسکتا ہے۔
ماہرین نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کاربن کریڈٹ کی رضاکارانہ مارکیٹ کا حجم 950 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جس میں تسلسل سے اضافہ ہورہا ہے۔ کاربن کریڈٹ کے لئے کنسلٹنٹ رپورٹ اور اس کی تھرڈ پارٹی کی تصدیق بنیادی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: انٹرا پارٹی انتخابات کیس، پی ٹی آئی کو دستاویزات جمع کرانے کیلئے مہلت
ماہرین کا کہنا تھا کہ فیکٹریوں گاڑی دھوئیں اور Un Treated پانی کی سمندر میں نکاسی سے گرین گیسز کی بڑی مقدار فضا یا آب وہوا کو زہریلا ہورہا ہے۔ پاکستان بھی فرانس پوسٹ انڈسٹریلسٹ نیٹ ٹمپریچر معاہدے کا سگنیٹری ہے جس کے تحت ہمیں اپنے درجہ حرارت کو نیٹ انکریز کو 1.5فیصد پر روکنا ہے لیکن اسکے برعکس صرف کراچی میں گزشتہ 10سال سے نیٹ انکریز کی شرح 2فیصد ہے۔
پیرس معاہدے کے تحت آلودگی کی شرح میں کمی ضروری ہے، کلائمٹ ایکشن سینٹر کے مطابق کاربن کریڈٹ کی عالمی مارکیٹ 50ارب ڈالر ہے لیکن اس کے برعکس او سی سی آئی نے یہ تخمینہ لگایا ہے کہ دنیا میں کاربن کریڈٹ کی مارکیٹ 500ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
بیرونی خریداروں کے مطالبے پر پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدی صنعتوں نے اپنی مصنوعات کی مینوفیکچرنگ میں آلودگی کی رپورٹنگ شروع کردی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پاکستانی مصنوعات کے برآمدکنندگان کی جانب سے رضاکارانہ طور پر آلودگی کی رپورٹنگ نہ کی گئی تو سال 2028 کے بعد عالمی مارکیٹوں میں ان کی مصنوعات کی برآمدات خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔