جسٹس منصور علی شاہ پاکستان سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس ہوں گے، اب انہیں اس روئےزمین کی کوئی طاقت سپریم کورٹ آف پاکستان کا 30 واں چیف جسٹس بننے سے نہیں روک سکتی کہ اب تو حکومتی وزراء نے بھی یہ تسلیم کرلیا ہے کہ وہی نئے چیف جسٹس آف پاکستان ہوں گے ، خواجہ سیالکوٹی منڈے خواجہ محمد آصف سے لیکر وزیر اطلاعات عطا تارڑ اور ترجمان مسلم لیگ ن رانا ثنا اللہ نے دبے لفظوں میں اس بات کا اظہار بھی کردیا ہے کہ چیف جسٹس اب منصور علی شاہ ہی بنیں گے لیکن پھر سوال اٹھتا ہے کہ موجودہ قاضی القضاۃ جناب قاضی فائز عیسیٰ اپنی مدت معیاد اگلے ماہ پوری ہونے کے بعد کہاں جائیں گے یہ بھی مجھے بتانا ہے اور جسٹس منصور علی شاہ کی زندگی بارے بھی کچھ معلومات آپ سے شیئر کرنا ہیں لیکن اس سے قبل بات کرتے ہیں اُس ترمیم کی کہ جس نے ملک کی سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کی نیندیں حرام کیے رکھیں ۔
حکومتی آئینی ترمیم کا معاملہ برابری پر ختم ہوتا نظر آرہا ہے یہ ایک ایسی نورا کشتی تھی جس میں دونوں فریق ہی کامیاب رہے دونوں ہی ناکام ، ہے نا عجیب بات لیکن یہ سچ ہے کہ حکومت یہ آئینی ترمیم کرانا چاہتی تھی لیکن نہیں کراسکی، سو رہی ناکام اور مولانا فضل الرحمٰن اپنی شرائط پر ترمیم منظور کرانا چاہتے تھے جو نہیں مانی گئیں، اس لیے مولانا بھی ہوئے ناکام ہوئے وہ سارے تجزیہ کار اور پتر کار جو اس ترمیم کے حق و مخالف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے اب خاموش ہیں لیکن ہم خاموش نہیں ہیں ہم تو بولیں گے کہ ترمیم تو منظور ہونی ہے اس کا فیصلہ ہوچکا آج نہیں تو کل لیکن اب کے انداز یا طریقہ کار کچھ مختلف ہوگا مولانا بھی خوش ہوں گے اور حکومت کے غمخوار بھی خوش، بس یہ تاخیر کچھ یوں ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو تین سال مزید سپریم کورٹ میں خدمت کا موقع نا ملے، شائد یہی مطمع نظر تھا پی ٹی آئی والوں کا، تو جناب اس پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں، قاضی فائز عیسیٰ یہاں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر نا ہوئے تو آئینی عدالت کے سربراہ ہوں گے یوں حکومت رند کی رند بھی رہے گی اور ہاتھ سے جنت بھی نا جائے گی ، صرف سمجھانے کے لیے کہ حکومت سپریم کورٹ آف پاکستانی میں کیے جانے والے آئینی فیصلوں سے ہمیشہ تنگ ہوتی ہے ،دیگر کیسیز جن کی تعداد ہزاروں لاکھوں میں ہے اس کی تو حکومت نے کبھی پرواہ بھی نہیں کی ان کے بارے کون فکر مند ہے ؟ اصل فکر تو یہ ہے کہ آٹھ سات کو تیرا ،سات کیا جائے ججز کی تعداد بڑھانے کی بات شائد اسی حکومتی پلڑے کو بیلنس کرنے کے لیے ہے، اب قاضی صاحب کی مدت معیاد نا بڑھی تو ججز تو بڑھ ہی سکتے ہیں ۔
ضرورپڑھیں:ہم اشرف المخلوقات نہیں،بنی اسرائیل بن گئے ہیں
اب آئیں جسٹس منصور علی شاہ کے بطور 30 ویں چیف جسٹس آف پاکستان بننے اور اُن کے تابناک کیئرئیر کی جانب تو ہماری ناقص معلومات کے مطابق متوقع (ابھی یہی لکھیں گے ) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس منصور علی شاہ 28 نومبر 1962 کو لاہور میں معروف قانون دان اور علمی گھرانے کے چشم و چراغ سید امجد علی شاہ کے گھر پیدا ہوئے ، ایچی سن کالج جیسے اعلیٰ تعلیمی ادارے سے ابتدائی تعلیم مکمل کی پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک گئے اور کیمرج یونیورسٹی سے ایل ایل ایم ماسٹر آف لاء کی ڈگری حاصل کی ، وطن واپسی پر لاہور ہائیکورٹ میں وکالت سے اپنے پروفیشنل کیرئیر کا آغاز کیا اور والد کی نیک نامی کی بدولت جلد ہی اپنا الگ مقام بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔ جسٹس منصور علی شاہ کو 15 ستمبر 2009کو لاہور ہائیکورٹ کا جج مقرر کیا گیا اپنے فیصلوں کی بے باکی اور آزادنہ ریمارکس نے انہیں جلد ہی ہردلعزیز بنادیا وہ سیاسی اثر رسوخ سے بالا اپنے فیصلے صادر فرماتے ہیں ۔
26 جون 2016 کو وہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے، انہوں نے جہاں فیصلوں کے جلد مربوط نظام کو بہتر بنایا بلکہ ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزشن کے اہم ترین کام کا آغاز بھی کیا ۔ انہوں نے عدالتی عملے پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بھی بہتر بنانے کے لیے تربیتی کورسز کا اہتمام کیا ، 15 فروری 2018 کو انہیں اسوقت کے صدر پاکستان ممنون حسین مرحوم نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے لیے بطور جج نامزد کردیا ۔
جسٹس منصور علی شاہ کے عزیز (سسرالی عزیزدار) بھی چیف جسٹس آف پاکستان رہ چکے ہیں جی ہاں سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ر جواد ایس خواجہ، جسٹس منصور علی شاہ کے سسرالی عزیز دار ہیں، یہ انکشاف اسوقت ہوا جب لاپتہ افراد کیس میں جسٹس جواد ایس خواجہ پٹیشنر کی حیثیت سے پیش ہوئے تو جسٹس منصور علی شاہ نے حکومتی نشاندہی پر خود کو بنچ سے الگ کرلیا تھا یہ اُن کی انصاف پسندی کی مثال ہے ، مخصوص نشستوں کے حوالے سے بھی جو وضاحت چند دن قبل تک زیر بحث رہی اس وضاحت کا چار صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے ہی تحریر کیا تھا۔
توصاحبو پی ٹی آئی کے اڈیالہ میں قید سربراہ بڑی بے چینی سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جانے اور نئے چیف جسٹس کے آنے کی منتظر ہے لیکن انصاف کے معاملے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ ایک سی پہچان رکھتے ہیں۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں:ایڈیٹر