ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع کی خبریں بے بنیاد ہیں،عرفان صدیقی
Stay tuned with 24 News HD Android App
(اویس کیانی) سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر اور خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ چیف جسٹس اور ججوں کی مدت ملازمت، اس میں توسیع اور ریٹائرمنٹ کی عمر نہیں بڑھائی جا رہی، یہ سب میڈیا میں جاری قیاس آرائیاں ہیں۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ آئینی ترامیم پر مولانا فضل الرحمان راضی ہو جائیں گے، جے یو آئی (ف) اور دیگر تمام جماعتوں کے تعاون سے ترامیم منظور ہو جائیں گی، جج کیا تنخواہ لیں گے، کب ریٹائر ہوں گے؟ یہ سب فیصلے پارلیمنٹ نے کئے ہیں اور آئیندہ بھی وہی کرے گی، وکلاء سے رابطہ کرکے ان کی رائے لی جائے گی، بار ایسوسی ایشنز سٹیک ہولڈر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی سے روکو، یہ ایسا ہی ہے جیسے عدلیہ کو فیصلے دینے سے روک دیا جائے، دو تہائی اکثریت نہ ہوئی تو ترمیم بھی نہیں ہوگی، نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 25 یا 26 ترامیم ہوچکی ہیں، سب مشاورت کے عمل سے گزر کر منظوری کی منزل تک پہنچی ہیں، ایک سوال پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ترامیم کا باب ختم نہیں ہوا بلکہ آگے بڑھ رہا ہے، پیپلز پارٹی اس عمل میں متحرک کردار ادا کر رہی ہے، بلاول بھٹو کی مولانا فضل الرحمان سے کئی ملاقاتیں ہو چکی ہیں جس میں بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمان کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی، مولانا فضل الرحمان نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور طے پایا کہ مشاورت کا عمل جاری رکھا جائے تاکہ اتفاق رائے قائم ہو سکے۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ میثاق جمہوریت اٹھارہ سال پہلے ہوا تھا جس سے بعد ازاں مولانا فضل الرحمان اور عمران خان نے بھی اتفاق کیا تھا، نواز شریف نے 18 سال پہلے میثاق جمہوریت میں جو چیزیں طے کی تھیں ان پر سب متفق ہیں، ترمیم کے لئے رابطے ان کی ذمہ داری نہیں، ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم میں ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے جو طریقہ کار طے کیا گیا تھا وہ اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کے دباؤ کی وجہ سے انیسویں ترمیم کے ذریعے ختم کر دیا گیا، اسی طریقہ کار کو بحال کرنے کے لئے حالیہ آئینی ترمیم میں شامل کیا گیا ہے، مولانا فضل الرحمان کے بغیر ہمارے نمبر پورے نہیں ہیں، انہیں آن بورڈ لینا ہوگا، مولانا فضل الرحمان کو اصولی طور پر ترامیم سے اتفاق ہے، وہ آئینی عدالت اور اٹھارویں ترمیم میں ججوں کے طریقہ کار سے متفق ہیں، جزئیات اور تفصیلات کو سمجھنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم تب ہوگی جب مولانا راضی ہوں گے،پیپلز پارٹی ہماری اتحادی ہے، وہ متحرک کردار ادا کر رہی ہے تو کوئی مضائقہ نہیں، مجھے یقین ہے کہ آئینی ترامیم مولانا فضل الرحمان اور دیگر تمام جماعتوں کے تعاون سے منظور ہو جائے گی۔ ایک سوال پر سینیٹر عرفان صدیقی نے کہاکہ قیام پاکستان کے بعد سے سب سے سینئر جج کو چیف جسٹس کی تعیناتی کا طریقہ نہیں تھا، یہ طریقہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے بدلا تھا اور خود بھی اس کا شکار ہو کر گھر چلے گئے تھے کیونکہ وہ خود سنیارٹی لسٹ میں ساتویں نمبر پر تھے، چار سینیئر ترین ججوں میں سے ایک جج کو چیف جسٹس تعینات کرنے کا پرانا نظام بحال کرنا چاہتے ہیں۔