(24نیوز)جسٹس قاضی فائز عیسٰی نےنظرثانی کیس میں دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ دو سال سے میری گردن پر تلوار لٹک رہی ہے اور حکومت کہتی ہے بس کسی طرح مجھے برطرف کیا جائے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی صدارتی ریفرنس نظر ثانی کیس کی سماعت کی۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے دلائل دیے کہ 22 جون 2020 کو وزیر قانون فروغ نسیم نے میری اہلیہ سے متعلق عدالت میں ایک بات کہی کہ ہندومذہب میں شوہر کے مر جانے کے بعد اہلیہ ستی ہو جاتی ہے اور خاتون کی شناخت شوہر سے ہوتی ہے، وزیر قانون نے تمام خواتین کی توہین کی ہے، عدالت میں جھوٹ بولے گئے وہ سامنے لانا چاہتا ہوں، میرے خلاف کیس کو تاخیر کا شکار کرنے کیلئے متعدد بار مقدمہ ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ جو الزامات لگا رہے ہیں ہمیں ان کو دیکھنا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ الزام نہیں بلکہ عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے، میری درخواست ہے کہ مجھے اپنے دلائل مکمل کرنے دیں، میں اپنے طریقے سے دلائل دونگا، سوال پوچھنے ہیں تو سماعت 9:30 بجے رکھا کریں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے انہیں تنبیہ کی کہ اپنی آواز کو نیچا رکھیں، یہ عدالت ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دو سال سے میری گردن پر تلوار لٹک رہی ہے، جذباتی ہونے پر عدالت سے معذرت خواہ ہوں۔
جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ سرینا عیسی نے دلائل میں کہا کہ لندن جائیدادوں کے ریکارڈ میں جسٹس فائز عیسی کا نام نہیں، ان جائیدادوں کے لیے فنڈز کی منتقلی میں بھی میرے شوہر کا کردار نہیں، وہ کیس میں فریق نہیں تھے پھر بھی میرے اور بچوں کے خلاف فیصلہ دیا گیا، لندن جائیدادوں کا ریکارڈ بھی سپریم کورٹ کو فراہم کیا تھا، ایف بی آر نے اپنے حکمنامہ میں میری تنخواہ اور ملنے والے کرایوں کو شامل نہیں کیا، کراچی کی فروخت کی گئی اراضی کا پیسہ بھی آمدن میں شامل نہیں کیا۔
جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ جسٹس فائز عیسی سپریم جوڈیشل کونسل کا سامنا نہیں کرنا چاہتے، سرینا عیسیٰ کا نام سپریم جوڈیشل کونسل میں جاری انکوائری میں سامنے آیا۔جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے پیٹھ پیچھے کارروائی کی، کونسل کے رویے کے بعد ریفرنس کو چیلنج کیا، ایف بی آر رپورٹ کو ریاستی راز بنا کر رکھا گیا ہے، حکومت کہتی ہے بس کسی طرح مجھے برطرف کیا جائے۔
دوران سماعت سپریم کورٹ کے حکم پر سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل نے ایف بی آر رپورٹ عدالت میں جمع کروادی۔ جسٹس عمرعطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے کہا کہ رپورٹ کی کاپی کروا کر آپ کو بھی دیدیں گے۔
سرینا عیسی نے کہا کہ جائیدادیں خریدی گئی تو بچے بالغ اور برسر روزگار تھے، شہزاد اکبر عمران خان کی متوازی حکومت چلا رہے ہیں، سابق چیرمین ایف بی آر جہانزیب خان نے جسٹس فائز عیسی کے خلاف تحقیقات کی منظوری نہیں دی جس پر انہیں عہدے سے ہٹایا گیا، جہانزیب خان نے شہزاد اکبر کی غیر قانونی فرمائش پوری نہیں کی تھی۔
جسٹس عمرعطا بندیال نے سرینا عیسیٰ سے کہا کہ آپ کو سمجھنا ہوگا کہ ریفرنس عدالت کالعدم قرار دے چکی ہے، آپ کے تمام دلائل ریفرنس کے خلاف ہیں، آپ کا معاملہ صرف کیس ایف بی آر کو بھجوانے تک ہے، آپ جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے بہت بہتر دلائل دے رہی ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے سوال کیا کہ کیا میں اپنی اہلیہ کو وکیل کر لوں؟۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ آپ نے بہت دیر کر دی یہ پہلے سوچنا تھا۔عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔
یہ بھی پڑھیں: اداکارہ ندا یاسر دوران شو والدہ سے متعلق گفتگو پر آبدیدہ