کیا ضمیر کی آواز پر پارٹی کے خلاف ووٹ دینا جرم ہے ؟سپریم کورٹ 

Apr 19, 2022 | 15:48:PM

     ( 24 نیوز)  آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ کیا ضمیر کی آواز پر پارٹی کے خلاف ووٹ دینا جرم ہے ؟،کیسا جرم ہے جس کی آئین میں اجازت دی گئی ہے ؟۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی  سربراہی  میں سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی ،  عدالت نے ریمارکس دئیے کہ ووٹ نیوٹرل ہونے کی وجہ سے آئین میں نا اہلی کی سزا نہیں  تھی ، 18 ویں ترمیم میں  آرٹیکل  62 ایف ون  میں عدالتی ڈیکلیریشن شامل کیا گیا۔

جسٹس جمال خان نے ریمارکس دئیے کہ کیا ضمیر کی آواز پر پارٹی کے خلاف ووٹ دینا جرم ہے ، یہ کیسا جرم ہے جس کی آئین میں اجازت دی گئی ہے ۔

  فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ  یہ مسائل نئی نئی جمہوری قوتوں کے ہیں ،ہمار املک اس  وقت انارکی کی جانب بڑھ رہا ہے ،  کوئی سپریم کورٹ  کے فیصلے کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں

عدالت نے ریمارکس دئیے کہ حالات اتنے خراب نہیں، عمومی بات نہ کریں ،کلچربن گیاہےفیصلہ حق میں آئےتوانصاف،خلاف آئےتوانصاف تارتارہوگیا،جو بات لیڈر کرتا ہے،عوام اس کے پیچھے چل پڑتےہیں، امریکی جج کے مطابق عدالتی فیصلہ نہ ماننے والی حکومت کو  لوگ ووٹ نہیں دینگے ۔

جسٹس جمال خان نے ریمارکس دئیے کہ  عوام کویہ بھی علم ہوتا ہےکہ فیصلہ کیاآیاہے۔

فاروق ایچ نائیک نے  کہا کہ  17ویں ترمیم میں وزیراعظم اورپارٹی سربراہ کوبےپناہ اختیارات دیئےگئے   ، وزیراعظم کیخلاف تو سپریم کورٹ بھی کارروائی نہیں کرسکتی تھی۔  چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ  فرض کریں وزیراعظم کیخلاف چوتھےسال عدم اعتماد آتی ہے، منحرف اراکین کیخلاف ریفرنس الیکشن کمیشن جاتا ہے الیکشن کمیشن اورسپریم کورٹ سےفیصلےہونےمیں ایک سال لگتا ہے، فیصلےتک اسمبلی مدت پوری کرجائےتومنحرف رکن کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ  الیکشن کمیشن نااہلی ریفرنس پرمقررہ مدت تک فیصلےکاپابند ہے۔

 جسٹس جمال خان نےریمارکس دئیے کہ  سپریم کورٹ بھی مقررہ مدت تک فیصلے کی پابند ہے، جہاں بھی اختیار حد سے زیادہ ہو گا،وہاں استعمال غلط ہوگا، آرٹیکل 63 اے کا مقصد نااہلی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کابینہ کی تشکیل کے بعد حکومت گورنرز کی تعیناتی کیلئے متحرک

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ  آرٹیکل 63اے کامطلب منحرف رکن کوپھانسی دینا بھی نہیں۔ جسٹس جمال خان نے ریمارکس دئیے کہ کیاالیکشن کمیشن منحرف اراکین کیخلاف ریفرنس مسترد کرسکتاہے،  انحراف اتنابڑاجرم ہےتووزیراعظم کیخلاف ووٹ پرپابندی کیوں نہیں لگائی ؟۔

  عدالت نے سماعت کل دن 1 بجے تک ملتوی کر دی ۔

یہ بھی پڑھیں:بلاول بھٹو اور شاہد خاقان عباسی نے حلف کیوں نہیں اٹھایا؟

مزیدخبریں