(24نیوز)پنجاب میں جاری آئینی اور سیاسی بحران نے نیا موڑ لے لیا۔وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کے استعفے کے بعد پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف 16اپریل کو ہنگامہ خیز اور لڑائی مارکٹائی والے اجلاس میں حکومتی امیدار چودھری پرویز الٰہی کو شکست دے کر وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔لیکن تحریک انصاف کے رہنما اور گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے ان سے حلف لینے سے انکار کرتے ہوئے حلف برداری تقریب ملتوی کر دی تھی اس کے بعد گورنر نے عثمان بزار کے استعفے پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے رائے طلب کی تھی کیونکہ عثمان بزدار نے بنی گالہ میں وزیر اعظم عمران خان کو استعفا دیا تھا مگر قانون کے مطابق وزیر اعلیٰ نے گورنر کو استعفا دینا ہوتا ہے۔اس وقت بھی سیاسی حلقوں اور میڈیا نے عثمان بزدار کے استعفے کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابق گورنر چودھری محمد سرور جاتے جاتے ؒعثمان بزدار کا استعفا منظور کر گئے تھے۔اس وقت حلف کے حوالے سے حمزہ شہباز نے عدالت عالیہ سے رجوع کر لیا ہے۔
گورنر کی طرف سے رائے طلب کرنے پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کے خط کا جواب دے دیا ۔جواب میں انہوں نے وزیر اعلیٰ سردارعثمان بزدار استعفے کو غیر آئینی قرار دے دیا اور کہا کہ ان کا استعفا آئین کے آرٹیکل 130 کی سب شق 8 کی خلاف ورزی ہے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے جواب کے بعد گورنر پنجاب نے آئینی ماہرین کا اجلاس طلب کر لیا۔
ذرائع کے مطابق اگر گورنر نے ایڈووکیٹ جنرل کی رائے سے اتفاق کیا تو وہ سردار عثمان بزدار کے استعفے کو غیرآئینی قرار دے کر ان کا استعفا مسترد کر سکتے ہیں۔اگر ایسا ہو گیا تو عثمان بزدار واپس عہدے پر بحال ہو جائیںگے۔
یہ بھی پڑھیں۔وزیر اعظم شہباز شریف سے آرمی چیف کی ملاقات