(24 نیوز)وزارت دفاع کی سپریم کورٹ میں دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر انتحابات کیلئے فنڈز فراہم نہ کیے گئے تو شدید سنگین نتائج آسکتے ہیں،عدالت نے تمام سیاسی جماعتوں کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کل ساڑھے گیارہ بجے طلب کرلیا ۔
وزارت دفاع کی درخواست پر سماعت ،چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔3رکنی بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس بہت لمبا ہوگیا ہے،ہمارے سامنے بہت سی رپورٹس پیش کی گئیں، سرکار نے ایگزیکٹیو اختیار پارلیمنٹ کو دیا یا نہیں ہمیں بتائیں۔
اٹارنی جنرل نے وزرات خزانہ کا جواب پڑھ کر سنایا ،چیف جسٹس جواب پر بولے کہ کیا صرف الیکشن کے معاملے میں فنڈز کی فراہمی کیلئے کابینہ معاملہ کمیٹی کو بھیجتی ہے،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہ طے شدہ قانون ہے کہ وفاقی حکومت رقم فراہم کر سکتی ہے،وضاحت پیش کریں کہ قائمہ کمیٹی کو معاملہ کیوں بھیجا گیا،آئین کے مطابق وفاقی حکومت انتخابات کیلئے پیسے دے سکتی ہے، جب وفاقی حکومت درخواست کر رہی ہے تو اسمبلی فنڈز کی فراہمی سے کیسے انکار کر سکتی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ معاشی صورتحال میں حکومت کیلئے بجٹ سے ہٹ کر فنڈز دینا خطرناک تھا،جسٹس منیب اختر بولے کہ کیا مطلب ہے الیکشن کیلئے رقم دینا کیسے خطرناک ہوگیا،کئی بار وزارت خزانہ سے فنڈز کا پوچھا اور جواب ملا کہ سپلیمنٹری گرانٹ سے پیسے دیئے جاسکتے ہیں،اٹارنی جنرل صاحب بتائیں کہ فنڈز کی عدم فراہمی کا نتیجہ کیا ہوگا،کیا آپ ہمیں بتا رہے ہیں کہ حکومت کی قومی اسمبلی میں اکثریت نہیں ہے۔وزیر اعظم کو ارکان اسمبلی کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے،وزارت خزانہ کے جواب کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ قومی اسمبلی کی کاروائی کا خود جائزہ لیا،انتخابات کیلئے فنڈز دینا آئینی تقاضا ہے،انتخابات کیلئے فنڈز کی فراہمی کا بل مسترد ہونا پارلیمنٹ کیخلاف ہے،حکومت اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کرے،وفاقی حکومت سے فنڈز کی فراہمی سے متعلق دوبارہ جواب طلب کرلیا گیا ،چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ اگر انتحابات کیلئے فنڈز فراہم نہ کیے گئے تو شدید سنگین نتائج آسکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے پہلے انتظامی امور قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی کو بھجوانےکی کوئی مثال نہیں ملتی، انتخابی اخراجات ضروری نوعیت کے ہیں، غیر اہم نہیں، حکومت کا گرانٹ مسترد ہونےکاخدشہ اسمبلی کے وجودکے خلاف ہے، کون گارنٹی دے گا کہ 8 اکتوبر کو حالات پر امن ہوں گے؟ وزارت دفاع کا جواب تسلی بخش نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے اکتوبر تک الیکشن نہیں ہوسکتے، الیکشن کمیشن نے ایک ساتھ الیکشن کرانے کا بھی کہا ہے، الیکشن کمیشن کی اس بات پرکئی سوالات جنم لیتے ہیں، الیکشن کمیشن کی آبزرویشن کی بنیاد سکیورٹی کی عدم فراہمی ہے، دہشت گردی ملک میں 1992 سے جاری ہے،1987، 1991، 2002، 2008، 2013 اور 2018 میں الیکشن ہوئے، اب ایسا کیا منفرد خطرہ ہے جس کے باعث الیکشن نہیں ہوسکتے؟
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پہلے ایک ساتھ تمام سکیورٹی فورسز نے فرائض سرانجام دیے تھے، اب دو صوبوں میں الیکشن الگ ہوں گے۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع نے بھی اندازہ ہی لگایا ہے، حکومت محض اندازوں پر نہیں چل سکتی۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں جنگ کی صورتحال میں بھی ایک دن انتخابات میں تاخیر نہیں ہوئی تھی، کیا آئین کہیں پر یہ مینڈیٹ دیتا ہےکہ اسمبلی تحلیل ہونےکے بعد اگلے سال انتخابات کرائے جائیں؟ عدالت کوکہاں اختیار ہےکہ الیکشن اگلے سال کروانےکا کہے؟
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال ایک حکومت کا خاتمہ ہوا تھا، عدالت نوٹس نہ لیتی تو قومی اسمبلی تحلیل ہوچکی تھی، صوبائی اسمبلیوں کے ہوتے قومی اسمبلیوں کے انتخابات بھی تو ہونے ہی تھے، آئین میں اسمبلی تحلیل ہونے پر الیکشن کا وقت مقرر ہے۔
سپریم کورٹ نے کل تمام سیاسی جماعتوں کو طلب کرلیا ،مسلم لیگ ن،پی ٹی آئی ،پیپلز پارٹی کو نوٹسز جاری کردئیے گئے،عدالت نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے نمائندے پیش ہوں،جماعت اسلامی ،جے یو آئی (ف)کو بھی نوٹسز جاری کردئیے گے۔کیس کی مزید کارروائی کل ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی ۔
اس سے قبل وزارت دفاع نے سربمہر درخواست سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہے۔ وزارت دفاع نے دائر درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کا حکم دیا جائے اور سپریم کورٹ پنجاب میں انتخابات کا حکم واپس لے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت سندھ اور بلوچستان اسمبلی کی مدت مکمل ہونے پر انتخابات کا حکم دے،ملک میں جاری سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر سپریم کورٹ 4 اپریل کا فیصلہ واپس لے۔
ضرور پڑھیں :ڈی جی آئی ایس آئی اور چیف جسٹس کی طویل ملاقات، کس کی خواہش پر کرائی گئی ؟ اہم خبر سامنے آ گئی
دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکار بار بار الیکشن کے لیے موبیلائز نہیں کرسکتے، بہتر ہوگا الیکشن ایک ہی دن کروائے جائیں۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کرانے کا حکم دے رکھا ہے، اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک کو الیکشن کمیشن کو فنڈز فراہم کرنے کا حکم دیا تھا تاہم قومی اسمبلی نے فنڈز کے اجرا کی قرارداد مسترد کردی۔