تم یہ نہیں بول سکتے،تم یہ نہیں کہہ سکتے،تم یہ لکھوگے تو غدار کہلائے جاؤ گے،یہ بولو گے تو ماردئیے جاؤ گے،فلاں فلاں تمھاری حد ہے اسے عبور کرو گے تو اٹھا لئے جاؤ گے،یہ اپنی مرضی سے بولتا ہے،یہ اپنی مرضی سے سوچتا ہے ،یہ بے ادب مقدس لوگوں پر حرف اٹھاتا ہے،یہ ان کے بارے میں پوچھتا ہے جن کے بارے میں سوال کرنا گناہ ہے،یہ وہ پابندیاں ہیں جن میں پاکستانی معاشرہ جکڑا ہوا ہے۔
مقرر اپنی مرضی سے تقریر نہیں کرسکتا،لکھاری آزادی سے لکھ نہیں سکتا ۔صحافی کے پاس خبر ہوتی ہے لیکن وہ اسے من و عن اپنے قارئین یا ناظرین تک پہنچانے سے قاصر ہے۔
کتنی افسوسناک بات ہے کہ پاکستان بھر میں 17 فروری سے بند ہونے والی ’ایکس‘ کی سروس تاحال بلا تعطل بحال نہیں ہوسکی ہے،شرمندگی کی بات یہ ہے کہ حکومت کے اہم عہدیدار بھی جواب دینے سے قاصر ہیں اور لاعلم نظر آتے ہیں کہ اسے کیوں بند کیا گیا؟بلکہ اقتدار پارٹی کے رہنماء بھی اس کو کھولنے کے حق میں آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں ۔
پہلے پہل تو کسی بھی ادارے نے اس سرو س کے بند ہونے میں کردار سے متعلق نفی کی ۔لیکن سروس کے بند ہونے کے20 روز بعد 5 مارچ کو پی ٹی اے نے ملک بھر میں سوشل میڈیا سائٹ ’ایکس‘ کی بندش پر سندھ ہائی کورٹ میں جواب جمع کراتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نےوزارت داخلہ کے کہنے پر یہ سروس بند کی ۔عدالتوں کے احکامات اور کیسز کی شنوائی کے بعد بھی اب تک نہ تو یہ سروس بحال ہو سکی ہے اور نہ ہی خاطر خواہ جواب دیا گیا۔پھر وزارت داخلہ نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ایکس کی بندش کے خلاف اسلام آباد میں ایک رپورٹ جمع کرائی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ایکس کی بندش کا فیصلہ قومی سلامتی اور امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایکس کی جانب سے پلیٹ فارم کے غلط استعمال سے متعلق حکومت پاکستان کے احکامات کی پاسداری نہیں کی گئی، حکومت پاکستان کے احکامات کی پاسداری نہ ہونے پر ایکس پر پابندی لگانا ضروری تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس سے قبل حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹک ٹاک پر بھی پابندی لگائی گئی تھی، ٹک ٹاک کی جانب سے پاکستانی قانون کی پاسداری کے معاہدے پر دستخط کے بعد پابندی کو ختم کردیا گیا تھا۔دوسری جانب جب وفاقی وزیر داخلہ سے اس بابت پوچھا گیا تو وہ کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر پابندی کے حق میں نہیں لیکن اس حوالے سے قانون سازی ہونی چاہئے۔ان کی بات یقیناً درست ہے لیکن بغیر وجہ،بلا کسی اطلاع کے یہ ’زباں بندی‘ درست ہے؟اگر قانون سازی ضروری ہے تو یہ کب تک ممکن ہے؟ڈیڈلائن کسی کے پاس نہیں اور نہ ہی کوئی جواب ۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو ’ففتھ جنریشن‘اور باجوہ ڈاکٹرائن کے بڑے چرچے تھے۔ایک منصوبے کے تحت اس مخصوص نظریے کو نوآموز ذہنوں میں انڈیلا گیا ،اس وقت نوجوانوں کو ’وارئیرز‘قرار دیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ جو برتری پاکستان اور اس کے ادارے کو حاصل ہے وہ بھارت کو بھی نہیں،پھر وقت بدلا،حالات بدلے اور جذبات بھی بدل دئیے گئے۔جو محب وطن تھے وہ غدار ٹھہرے اور جو کرپٹ تھے وہ’صادق اورامین‘بن گئے۔زبان وبیان کل بھی کنٹرول کیا جارہا تھا اور آج بھی ۔
قلم ،مائیک ،کی بورڈ کو کنٹرول میں رکھنے والے چاہتے کیا ہیں؟ ان کی چاہت ہے کہ یہ ان قصیدہ خواں بنے رہیں،جو ہم کہیں وہی سنیں،جو ہم بولیں وہی لکھیں،یہ چاہتے ہیں کہ کوئی سوال اٹھانے کے قابل نہ رہے ،یہ چاہتے کہ کوئی دانش کی بات نہ کرسکے،یہ چاہتے ہیں کہ جو ہم کہیں اسی کو سچ سمجھ کر قبول کیا جائے،یہ بڑی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں ، عہد حاضر کے بچے دس سال سے پیچھے نہیں سوچتے ،یہ بچے ’’لانگ ٹرم میموری لاس‘‘ کا شکار ہوچکے ہیں، 10 سال سے پیچھے ان کے دماغ بند ہوجاتے ہیں۔ پہلے کیا سے کیا ہوتا رہا ؟ کچھ بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتا ۔
ضرورپڑھیں:آرمی چیف پر الزام تراشی ، بانی پی ٹی آئی کی نئی شطرنج
یہ ایک سوچ اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ۔ اداروں کو بانجھ کرنے ،ذہنوں کو قید کرنے کا کام تین دہائیاں پہلے شروع کیا گیا اب اس کا پھل اٹھا رہے ہیں ۔ایک ایک کرکے عقل وشعور کی بات کرنے والے ادارے بانجھ بنادیے گئے،اب وہ انقلابی شاعر نہیں ملیں گے جن کے ایک ایک مصرعے پرشرکاء میں زلزلہ پیدا ہوجاتا ،اب وہ لکھاری نہیں رہے جن کے جملے دستور بن جاتے،اب وہ طلباءنہیں جن کے نعروں سے ایوان کانپتے تھے،اب تو تعلیمی ادارے برائلر پالنے والے مرغی فارم بن چکے ہیں جن کے تیار کردہ بچے خود اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوسکتے۔ہم ایک ہجوم بن گئے ایک قوم نہ بن سکے۔
کچھ چیدہ چیدہ پرانے لوگ رہ گئے ہیں ان کو بھی بزور طاقت جھکانا چاہتے ہیں، ان کو ڈرایا جارہا ہے ،دھمکایا جارہا ہے،پھر بھی باز نہیں آئے تو سوشل میڈیا پر رلایا جارہا ہے،سر جس پہ نہ جھک جائے اسے در نہیں کہتے ،ہر در پہ جو جھک جائے اسے سر نہیں کہتے۔یہی کام بھارت کا مودی کرتا ہے تو ہم اسے فسطائی کہتے ہیں۔ یہی کام امریکا کا ٹرمپ کرتا تھا تو ہم گالیاں دیتے ،یہی کام اسرائیلی نیتن یاہو کرتا تو اسے ہم کیا سے کیا کہتے ۔ ہمیں اپنا سچ سچ کیوں لگتا ہے؟ کسی دوسرے کا سچ سننے کا بھی دل گردہ ہونا چاہئے۔
نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر