معروف مذہبی سکالر جماعت اسلامی کے بانی دستے کے رکن اور بانی جماعت اسلامی مولانا مودودیؒ کے دست راست ڈاکٹر اسرار احمدؒ یوں تو قیامت اور احیاء اسلام کے حوالے سے اپنی پیش گوئیوں کے حوالے سے معروف ہیں لیکن سیاسی میدان میں انہوں نے جماعت اسلامی بارے جو پیش گوئی 66 برس پہلے مولانا مودودیؒ کے سامنے کی اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی راہیں جدا کرلیں وہ پیش گوئی آج بھی سچ ثابت ہورہی ۔
یہ سب مجھے کل پھر یاد آیا جب حافظ نعیم الرحمٰن نے جماعت اسلامی کے چھٹے امیر کی حیثیت سے حلف اٹھایا ،میں تقریب میں شریک تو نا ہوسکا لیکن ٹی وی پر دیکھا کہ حلف اٹھاتے ہوئے اُن کی آنکھیں نم تھیں ظاہر ہے جماعت اسلامی جیسی جماعت میں امیر ہونا کسی وڈیرہ شاہی یا بادشاہی والا کام نہیں ذمہ داری کا کام ہے ، بوجھ ہے اُس سنتالیس ہزار ووٹروں کا جنہوں نے انہیں منتخب کیا ہے اور ایک ایسی جماعت کا امیر جس کو انتخابی عمل میں کوئی کامیابی مستقبل قریب میں تو کیا دور تک بھی نظر نہیں آرہی۔
اس کی وجوہات کیا ہیں؟ کیا پاکستان ایک اسلامی ملک نہیں یا پاکستان میں رہنے والے شہری اسلامی نطام کے نفاذ میں دلچسپی نہیں رکھتے ؟ بظاہر تو ایسا کچھ نہیں ہے لیکن ایسا کیوں ہے کہ جماعت اسلامی انتخابی سیاست میں ہمیشہ ناکام رہی ہے اور آئندہ بھی اسی نطام میں رہتے ہوئے قوی امکان ہے کہ ناکام ہی ٹھہرے گی اس کے باوجود کہ جماعت اسلامی اپنے ذیلی اداروں کے ساتھ اس وقت بھی پاکستان کی سب سے بڑی فلاحی و اصلاحی جماعت ہے افراد اس جماعت کو امداد و زکواۃ ، کھال سب دیتے ہیں لیکن ووٹ نہیں دیتے یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے ۔
ضرورپڑھیں:نواز شریف بھاگو!ہم پر قحط کا عذاب آنے والا ہے
اس جماعت کا قیام 26 اگست 1941 کو معروف مذہبی سکالر سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے لاہور میں رکھا، جس کا مقصد احیاء اسلام کی جدو جہد کرکے مکمل اسلامی معاشرے کی تکمیل کرنا تھا پاکستان بننے کے بعد اس جماعت کو پہلا نقصان تو یہ پہنچا کہ اس جماعت کے بہت سے متحرک رہنما و کارکن تین حصوں میں تقسیم ہوگئے،باقی ماندہ تنظیم کے ساتھ مولانا مودودیؒ نے ایک مرتبہ پھر کام کا آغاز کیا ، لیکن اب کے انہیں احساس ہوا کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں داخل ہوئے بغیر اسلامی مشن کو مکمل نہیں کیا جاسکتا یہ ایک بڑا فیصلہ تھا ، جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ افراد کی ذہنی نشو ونما تو موجودہ جمہوری نظام کے تحت نہیں کی گئی تھی گو 1958 میں بہاولپور کے نزدیک گاؤں ماچھی گوٹھ میں جماعت اسلامی کا آل پاکستان اجتماع ہوامنعقد ہوا جس میں امیرو بانی جماعت اسلامی ابو الاعلیٰ موددیؒ نے جماعت کے مستقبل پر طویل ترین تقریر کی اس تقریر کو بعد ازاں " جماعت اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل " کے نام سے چھاپا بھی گیا ۔
تقریر میں مولانا موددی نے پہلی مرتبہ نظام میں شامل ہونے کی بات کی عام پڑھنے والوں اور سننے والوں کے لیے شاید یہ بات خوش کُن یا حوصلہ افزا معلوم ہو لیکن در حقیقت یہ جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ ایک نظریاتی گروپ کے لیے برداشت کرنا کسی بڑے پہاڑ اور مقصدیتِ جماعت اسلامی کے خلاف بڑا قدم یا یوٹرن تھا ،اجلاس میں ہی مولانا امین احسن اصلاحیؒ اور ڈاکٹر اسرار احمدؒ جیسے متحرک افراد نے نا صرف اختلاف کیا بلکہ جماعت اسلامی سےمستعفی بھی ہوگئے ، یہ 1947ء سے بھی بڑا جھٹکا تھا ، مولانا امین اصلاحی نے اپنی باقی زندگی اشاعت و ترویج میں لگالی جبکہ ڈاکٹر اسرار احمد نے تنظیم اسلامی کے نام سے ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھی، اختلاف اتنا شدید تھا کہ دونوں بڑے اسلامی سکالرز نے پیدا کی ہوئی اس خلیج کو کبھی پُر کرنے کوشش نہیں کی، ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا موقف تھا کہ جماعت اسلامی کبھی موجودہ سیاسی نطام جو منافقت پر مبنی ہے میں انتخابی کامیابی حاصل نہیں کرسکتی، ماچھی گوٹھ اجلاس میں انہوں نے پیش گوئی کی کہ جماعت اسلامی نے اسلامی معاشرے کی تکمیل کے لیے اگر اپنی جدوجہد ختم کرکے انتخابی سیاست کی تو نا ں یہ سیاسی جماعت بن پائے گی اور ناں ہی اسلامی اور کبھی ایسی کامیابی حاصل نہ کر سکے گی جو اسے اقتدار تک لے جائے ، انہوں نے ماچھی گوٹھ میں جو تقریر کی اسے بعد ازاں " تحریک جماعت اسلامی کا گمشدہ باب" کے نام سے شائع بھی کرایا ۔
یہ بھی پڑھیں:آرمی چیف پر الزام تراشی ، بانی پی ٹی آئی کی نئی شطرنج
66 سال پہلے ڈاکٹر اسرار احمدؒنے جماعت اسلامی کے مستقبل کے حوالے سے جو پیش گوئی کی تھی کہ "یہ جماعت اس سیاسی نظام میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی " بتائیے آج کیا حرف بحرف سچ ثابت نہیں ہورہی ،جماعت اسلامی ماسوائے مارشلائی ادوار کے کبھی کوئی بڑی کامیابی حاصل کرسکی؟ 1970ء میں بالغ رائے دہی کے انتخابات ہوئے تو جماعت اسلامی کو بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا ،پورے مشرقی مغربی پاکستان میں سب سے زیادہ امیدوار جماعت اسلامی کے تھے لیکن سیٹیں صرف 4 جیتیں، یہ جماعت اسلامی کو بہت بڑا سیاسی دھچکا تھا، 30 سال تک امیر جماعت اسلامی رہنے والے مولانا مودودیؒ نے امارت سے استعفٰی دے دیا ،70 سے آج تک پاکستان میں کئی ایک انتخابات ہوئے لیکن نتیجہ کم و بیش ایسا ہی رہا ڈاکٹر اسرار احمد کی گئی پیش گوئی آج بھی سچ ثابت ہورہی ہے،جماعت اسلامی انتخابات میں کامیاب کیوں نہیں ہوتی؟ اس کی وجوہات پر آئندہ کسی بلاگ میں لکھوں گا۔
ضروری نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر