وضو کی ٹوٹیاں اور شیطان کی ٹوٹی ,جسٹس شاہد کریم کے نام کُھلا خط  

از: عامر رضا خان 

Aug 19, 2024 | 20:59:PM

جناب مسٹرجسٹس لاہور ہائیکورٹ ، شاہد کریم صاحب !
آج آپ کو ایک فلم کی کہانی سناتا ہوں ہالی ووڈ میں یونیورسل سٹوڈیو کے بینر تلے بننے والی اینیمیٹیڈ یا کارٹون فلم کا نام ہے "لاریکس" اس فلم کی کہانی ڈاکٹر "سیس" نے لکھی ہے لیکن جانے کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس کہانی کا مرکزی خیال ہمارے شہر لاہور اور آپ کو سامنے رکھ کر لکھا گیا ہے جی ہاں آپ جناب جسٹس شاہد کریم کوسامنے رکھ کر لکھا گیا ہے ۔
جناب عالیٰ : 
فلم کی کہانی کچھ یوں ہے کہ لوہے اور کنکریٹ کی چار دیواری میں بند ایک شہر کا 12 سالہ لڑکا ٹیڈ ویگنز اپنی دادی سے قدرتی پیڑ پودوں کی کہانی سُنتا ہے ,وہ شہر میں بنی پلاسٹک کے پیڑ پودوں ، درختوں ڈسکو لائیٹ سے مزین مصنوعی پھولوں سے تنگ آکر شہر سے باہر جاکر جیتا جاگتا پودا لینے شہر کی ہر دیوار کو پھلانگ جاتا ہے جہاں اُس کی ملاقات ویران خوفناک اداسی بھرے اجاڑے میں "ونسلر" نامی بوڑھے سے ہوتی ہے جو اسے بتاتا ہے کہ کس طرھ ہنستے مسکراتے پیڑ پودوں کو اُس نے اپنی لالچ کی بھینٹ چڑھایا اور یوں وہ 12 سالہ بچہ اپنے شہر میں پھر سے درخت اگانے کا تہیہ کرتا ہے ،شہر کا قابض پلاسٹک مافیا اُس بچے کو روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا ہے لیکن وہ بچہ عزم مصمم سے ہر رکاوٹ اور سرمائے کو ٹھکرا کر پودا لگانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔

جناب جسٹس صاحب مجھے پتہ نہیں کیوں لگتا ہے کہ آپ وہ بچے ہو، جو جب 1964 میں اس شہر میں ہیدا ہوئے تو اپکی دادی نے آپ کو بتایا ہوگا کہ یہ باغوں کا شہر تھا  اور اب کنکریٹ اور گندے نالوں کا شہر بن گیا ہے اور یوں آپ نے اپنی دادی کو اسکا ہرا بھرا لہلہاتا صاف فضا والا جیتا جاگتا شہر واپس کرنے کی ٹھان لی ہے ،جناب ، سیاسی سماجی اور دولت کی بنا پر شہر لاہور کے نام نہاد لاکھوں بیٹے آئے اور چلے گئے ہر کوئی خود کو اس شہر سے منسوب کرتا ہے اور اسے اپنی دھرتی ماں ، جنم بھومی اور پتہ نہیں کیا کیا قرار دیتا ہے  لیکن عملی کام دیکھیں تو کسی نے ترقی کے نام پر اس شہر کی فضا کو آلودہ کیا اور کسی نے تحت لاہور کہہ کر اس شہر سے بدلہ لیا اور گندگی کے ڈھیر لگائے ، کسی نے یہ نا سوچا کہ آنے والے سالوں میں ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لیے سیمنٹ ، لوہا کنکریٹ کا ایک ایسا شہر چھوڑ کر جارہے ہیں جس کے ہر سانس میں پلاسٹک بیگ کی بو اور کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوگی ووٹ اور نوٹ کے اس کھیل میں شہر کہیں دور بہت دور سے ہی بند کردیا گیا اور آج اس شہر کو دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔

 اس شہر کا سرمایہ کار چائنہ سے پلاسٹک کے پودے منگوا کر بیچ رہا ہے آرکیٹیکٹ مصنوعی گھاس کے قالین لان میں یہ کہہ کر بچھا رہے ہیں کہ مٹی سے تو کیڑے مکوڑے جنم لیتے ہیں مچھر آتا ہے پلاسٹک میں تو یہ زندہ نہیں رہ سکتے ،کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ جس پلاسٹک میں خشرات العرض زندہ نہیں رہ سکتے اُس میں ہم انسان بھلا کیا زندہ رہیں گے لیکن کھانے پینے کا تمام سامان ، سبزیاں ، پھل ، دودھ دہی غرض ہر چیز ان پلاسٹک کی تھیلیوں میں بیچی جارہی ہے اور یہ پلاسٹک ایک ارب سال سے بھی زیادہ باقی رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے ہمارے دریا ، کھیت ، نہر وپہاڑ، آبشاروں ، تفریحی مقامات گھر ، دکانیں سب پر یہ پلاسٹک اپنا قبضہ جما چکا ہے ۔
پلاسٹک کی اس دنیا میں ہمیں آپ کی صورت ایک جیتا جاگتا انسان ملا ہے جس نے ریکارڈ کے مطابق 2026 میں ریٹائر ہوجانا ہے اور یہ سب ادارے جانتے ہیں اسی لیے آپ کے ماحولیات مقدمات میں دئیے جانے والے احکامات کو ٹالنے کی کوشش کی جاتی ہے اس سلسلے میں ہونے والی آخری سماعت میں تو جیسے ہر لاہورئیے کے دل کی آواز آپ کے ریمارکس سے نکل رہی تھی ہمارے درجہ اول کے رپورٹر ملک محمد اشرف نے اس کیس کی تین دن پہلے والی سماعت کو کچھ اس انداز میں رپورٹ کیا ۔۔۔

عدالت کا شہر میں ایل ڈی اے کی جانب سے لگائے گئے ٹائر کلرز کے معیار پر اظہار ناراضگی ،شہر میں ایل ڈی اے نے غیر معیاری ٹائر کلرز لگائے ہیں ، عدالت کا طلبہ کے لئے سکول بسوں کی خریداری نہ کرنے پر اظہار ناراضگی،گرین بیلٹ کو سڑک کے لیول سے نیچے ہونا چاہیے ،  جناب جسٹس شاہد کریم نے مساجد میں وضوکے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے پالیسی بنانے کا کہا ۔
جناب عالیٰ :
آپ نے تو مسلہ ہی حل کردیا جناب مسجد کے پانی کو ٹوٹیوں کے ذریعے بچانے کا آئیڈیا کسی شیطان کی ٹوٹی کا ہے جو بیرون ملک سے یہ ٹوٹیاں درآمد کرنا چاہتا ہے نہیں تو لاہور میں آج بھی دو مساجد ایسی ہیں  جن کا صرف وضو والا پانی غرقی کے ذریعے زمین کو واپس کیا جارہا ہے یہ حکم نامہ تمام مساجد کے لیے جاری فرمادیں ، ٹائرکلرز اچھے ہیں لیکن کوالٹی واقعی ہی خراب ہے ، اب آئیں اہم ایشو گرین بیلٹس اور ڈونگی گرونڈیں جناب عالیٰ کچھ سال پہلے تک شہر میں ایل ڈی اے کی جانب سے بنائی جانے والی تمام گراونڈز اور گرین بیلٹ سڑک سے نیچے ہی ہوتی تھیں بارش کے پانی سے سوکھی زمین کو دوبار پانی دیا جاتا تھا لیکن یورپ کی اندھی تقلید نے کہ جہاں بے پناہ بارشیں ہوتی ہیں یہاں بھی یہ ٹرینڈ بنوا دیا آج ہم سڑک کے ساتھ دو فٹ بلند گرین بیلٹ بناتے ہیں اور بارش کے پانی کو نکاس کرنے کے لیے نالیاں اور نالے بناتے ہیں جو پانی کو گندے نالے کے ذریعے دریا کو آلودہ کرتے ہیں ہم کروڑوں روپے سہ ماہی کا ڈیزل ان پودوں کو پانی دینے کے لیے لگاتے جناب اگر کسی کو نہیں یقین تو انہیں پیکو روڈ محمد علی جوہر روڈ ، جیل روڈ سمیت تمام روڈز کا جائزہ لیں۔

جناب انگریز چھانگا مانگا بنا گیا ہم راوی کے بیلے لوٹ کر کھا گئے ، جناب گندے نالوں کے کناروں سے واسا اہلکار نوٹ چھاپ رہے ہیں صرف ان کناروں پر ہزراوں درخت لگائے جاسکتے ہیں ، جناب لاہورکی فضا خراب کرنے میں سب سے اہم کردار پی ایچ اے سر انجام دے رہا ہے یہ محکمہ دیسی درختوں کا دشمن ہے یہ الٹے سیدھے ناموں والے درخت جو مقامی نہیں ہیں اُن کے نام پر پائن اور پام انکلیو بنا رہا ہے جناب لاہور سے قصور اور لاہور سے پتوکی مین  روڈ کی گرین بیلٹس پر ہائی وے ڈیپارٹمنٹ کی لوٹ مار بند کرائی جائے یہ اسے ہاوسنگ کالونیوں کو بیچ یا کرائے پر دے رہے ہیں بلا شبہ صرف ان دو روٹس پر لاکھوں نیم ، پیپل اور بوڑ کے درخت لگائے جاسکتے ہیں آپ انہیں پتوکی کی نرسریوں کو ہی بانٹ دیں تو وہ کوئی پیسہ لیے بغیر مٹی اڑاتی ان گرین بیلٹس کو گُل و گلزر کر دیں گے ۔
آخر میں جناب اللہ پاک آپ کو اس صدقہ جاریہ کی توفیق دئیے رکھے شہر سے پلاسٹک بیگز کو ہی ختم کرادیں تو سارا شہر آپ کو صدیوں تک دعائیں دے گا اگلی سماعت تک اللہ حافظ ۔
خیر اندیش :عامر رضا خان 

مزیدخبریں