قومی اسمبلی میں اگر خواتین اور اقلیتوں کو مخصوص نشستوں پر نمائندگی مل سکتی ہے تو خواجہ سراؤں کو کیوں نہیں ؟
رپورٹ : وسیم شہزاد | ہم پر مخصوص پیشے کی مہر لگانا زیادتی ہے ۔ اگر ایوانوں میں خواجہ سرا پہنچے تو 2 ماہ میں ملک کے حالات ٹھیک کر دیں گے ، خواجہ سرا
Stay tuned with 24 News HD Android App
پاکستان میں اس وقت سیاسی پارہ ہائی ہے ، کیونکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک میں عام انتخابات کے حوالے سے 8 فروری کی تاریخ دی جا چکی ہے اور باقاعدہ شیڈول بھی جاری کردیا گیا ہے ، جہاں الیکشن کے حوالے سے پاکستان بھر میں مختلف جماعتیں الیکشن کی تیاری کر رہی ہیں وہی ووٹ کے لیے سیاسی جماعتیں شہریوں کو اپنی جانب متوجہ کرانے کے لیے داو پیچ بھی لڑا رہی ہے ، یے پاکستان میں پہلی بار نہیں ہو رہا بلکہ ہر بار یہی تاریخ دہرائی جاتی ہے ، ووٹ کے لیے سیاستدان شہریوں کو قائل کرنے میں کامیاب تو ہو جاتے ہیں مگر کبھی کسی سیاستدان نے ووٹ کی اہمیت اور ووٹرز کی تعلیم پر روشنی نہیں ڈالی ۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاستدانوں کے لیے صرف ووٹ لینا ہی ضروری ہے یا ووٹرز کو اسکے ووٹ کی اہمیت بارے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے، یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اس ووٹ کے شعور سے ماورا شہریوں کو ووٹ کی آگاہی دینا کس کی ذمہ داری ہے ؟ آخر کیوں پاکستان میں ایک خاص طبقہ اپنے ووٹ کے حق سے محروم ہے ، اور جو لوگ ووٹ کے حوالے سے آواز اٹھائیں تو بااثر لوگ اس آواز کیوں دبا دیتے ہیں ، یہ خاموشی کب تک چلے گی ؟ کب تک وڈیروں اور جاگیرداروں کے گرد اس نام نہاد جمہوریت کاچکا چلتا رہے گا ؟ کب تک ووٹرز اپنے حق کو جانتے ہوئے بھی اس سے محروم رہے گا ؟ پاکستان میں جب بھی ووٹ کے حوالے سے محروم طبقے کی بات ہو گی تو اس میں خواجہ سرا بھی شامل ہونگے ، کیونکہ اس معاشرے میں مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ ساتھ خواجہ سراوں کی کثیر تعداد ابھی بھی ووٹرز کی تعلیم کے حوالے سے محرومی کا شکار ہے۔
شہر ملتان سے تعلق رکھنے والی 70 سالہ الحاج سعید نرگس کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی خواجہ سرا ہیں جنہوں نے 2013 سے اپنی سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا جس میں ان کے مد مقابل حریفوں سے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے سید عبدالقادر گیلانی اور سابق وفاقی وزیر سکندر حیات بوسن ٹھہرے تھے ،وہ کہتی ہیں ان حریفوں سے میں اسی دن جیت گئی تھی جس دن الیکشن میں ان برجوں کے خلاف کھڑی ہوئی ، 8 فروری کو حالیہ ہونے والے الیکشن میں الحاج سیعد نرگس این اے 148 سے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بجائے خود سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی مدمقابل ہونے جا رہی ہیں ۔ جسکی تیاریوں کا عملی آغاز اور کارنر میٹنگ سمیت کمپین کے لیے الحاج سعید نرگس نے کمر کس لی ہے ۔
الحاج سعید نرگس کا کہنا تھا کہ گزشتہ الیکشن سے میں نے بہت کچھ سیکھا ، اور بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، وہ کہتی ہیں کہ آج بھی پاکستانی معاشرہ کسی خواجہ سرا کو لیڈر ماننے کو تیار نہیں ہے ، بلکہ خواجہ سراوں کو سپورٹ کرنے والے لوگوں کا بھی مذاق اڑایا جاتا ہے لوگ انہی کے سامنے آپس میں چہ مگوئیاں کرتے ہیں کہ اب یے وقت آ گیا ہے کہ خواجہ سراوں کو ووٹ ڈالنا ہو گا، اب ہیجڑے ہمارا قبلہ درست خواجہ سرا کریں گے ، اب ملک کی بھاگ دوڑ یے چھکے سنبھالیں گے ، وہ کہتی ہیں کہ ایسی باتیں خواجہ سراوں کے لیے قیامت سے کم نہیں ، کبھی کبھی تو ہم لوگوں کا رویہ دیکھ کر اس سوچ میں گم ہو جاتے ہیں کہ کیا ہم انسان ہیں بھی یہ نہیں ؟
الحاج سعید نرگس کہتی ہیں کہ 2013 کے الیکشن کے بعد انہوں نے 2018 کے الیکشن میں اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں پریس کانفرس کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (گلالئی) کی سربراہ عائشہ گلالئی کی زبانی سنا کہ چار خواجہ سراء خواجہ سراء نایاب علی حلقہ این اے 142، ندیم کشش حلقہ این اے 52، لبنیٰ لال حلقہ پی پی 26 اور میڈم رانی حلقہ پی کے 40 سے ان کی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیں گے، جس پر ان کی خوشی دیدنی تھی کہ اب پاکستان میں یہ شعور تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے ، نا امید نہیں مگر ابھی بھی عام آدمی تک اس شعور کے پہنچنے میں بڑا وقت لگے گا لیکن وہ مانتی ہیں کہ اس شعور کو بیدار کرنے میں سیاسی جماعتیں خواجہ سراوں کو ٹکٹس جاری کر کے اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں ۔
ضرور پڑھیں:عام انتخابات 2024 کے لیے انتخابی عمل کا باقاعدہ آغاز آج سےہوگا
شہر ملتان سے خواجہ سراؤں کی لیگل ایڈوائزر معذمہ بخاری سرفراز کا کہنا تھا کہ 2013 کے انتخابات کے لئے جہاں الیکشن کے لیے ریکارڈ 25 ہزار کاغذات نامزدگی جمع ہوئے وہاں ایک خاص بات پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مختلف حلقوں سے خواجہ سراؤں کے غذات نامزدگی جمع کرائے گئے اور خواجہ سراؤں نے الیکشن میں حصہ لیا ۔ وہ کہتی ہیں 2009 ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کہ خواجہ سراؤں کی جنس کا اندراج شناختی کارڈ میں کیا جائے اور ان کو ووٹ کا حق ملنے کے بعد ملک بھر میں بسنے والے 5 لاکھ کے قریب خواجہ سراوں نے جہاں اپنے ووٹ کے بھر پور استعمال کا ارادہ رکھا وہی چند حلقوں میں خواجہ سراؤں نے الیکشن میں حصہ لینے کے عزم کا اظہار بھی کیا اور الیکشن میں کھڑے ہوئے جو کہ انکا قانونی حق تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ خواجہ سرا سپریم کورٹ کے فیصلے اور خاص طور پر چیف جسٹس آف پاکستان افتخارمحمد چودھری کی طرف سے ان کے حقوق کی آواز بننے پر تا حال مشکور ہیں ، معذمہ بخاری کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے قانون ہونے کے باوجود اس ملک میں خواجہ سراؤں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا جبکہ امریکا اور کینیڈا میں سب لوگ برابر ہوتے ہیں یہاں تک کہ ناروے میں کینیڈا کا سفیر تیسری جنس سے ہے۔
ڈائریکٹر الیکشن کمیشن بابر ملک کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن جنس کی تفریق کے بغیر تمام اہل افراد کو ووٹ ڈالنے کا حق دیتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ خواجہ سراؤں کو اپنا ووٹ رجسٹرڈ کرانے کے لیے الیکشن کمیشن اقدامات کر رہا ہے، پولنگ ڈے پر بھی خواجہ سراؤں کو ووٹ ڈالنے کے لیے الیکشن کمیشن اقدامات کرتا رہے گا ، بابر ملک کا کہنا تھا کہ اب پاکستان میں ہونے والے ہر الیکشن پر خواجہ سرا اپنا ووٹ رجسٹرڈ کرواسکتے ہیں ، الیکشن کمیشن ووٹرز کی جنس سے متعلق ڈیٹا نادرا سے حاصل کرتا ہے، جبکہ آئندہ الیکشن میں خواجہ سراؤں ووٹرز کے اندارج کے لیے فارم 21 پر الگ خانہ بنایا گیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے دستیازیزات کے مطابق ملک بھر سے 3 ہزار 29 خواجہ سرا ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے، 2018 کے انتخابات کی نسبت رجسٹرڈ خواجہ سرا ووٹرز کی تعداد میں ایک ہزار 116 کا اضافہ ہوا۔وہ کہتے ہیں کہ اس وقت سب سے زیادہ رجسٹرڈ خواجہ سرا ووٹرز صوبہ پنجاب میں ہیں، پنجاب میں رجسڑڈ خواجہ سرا ووٹرز کی کل تعداد 2200 ہے، 2018 کے انتخابات میں پنجاب میں رجسٹرڈ خواجہ سرا ووٹرز کی تعداد ایک ہزار 356 تھی۔جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے ڈیٹا کے مطابق 2023 میں پنجاب میں ووٹرز کی تعداد 7 کروڑ 23 لاکھ 10ہزار 582 تک پہنچ گئی ہے، جب کہ یہاں 2018 میں ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 6 لاکھ 72 ہزار 771 تھی۔
یہ بھی پڑھیں:کسانوں کی وزیراعلیٰ سے فریاد
شہر ملتان سے خواجہ سراؤں کے لیے بنائی گئی تنظیم سترنگی کی وائس پریزیڈنٹ علیشہ شیرازی کہتی ہیں کہ ان کو رپورٹ ہونے والے کیسز کے مطابق صرف خواجہ سراؤں کا دکھ ووٹ کے حق سے محرومی ہی نہیں ، بلکہ غیرت کے نام پر خواجہ سراؤں کو قتل کر دینا بھی رپورٹ ہوتا رہا ۔ وہ کہتی ہیں ہمارے ہاں آئے دکھیارے خواجہ سراؤں سے جب ہماری بات ہوتی ہے تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ہم اس ڈر سے جائیداد میں حصہ نہیں مانگتے کہ کہیں وراثت میں حصہ مانگے تو وہ اپنے پیاروں کے ہاتھوں مار دیے جائیں ،اکثر بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے خواجہ سرا کے مجرموں کو ماں باپ دیت قانون کے تحت معاف کردیتے ہیں، علیشہ شیرازی کا کہنا ہے کہ اس معاشرے میں ہماری شناخت کا حق ہم سے چھینا جا رہا ہے جبکہ ہمیں سرکاری ملازمتیں نہیں دی جاتی، سرکار کو چاہیے ایسی پالیسیز کو یکسر ختم کریں، جس سے خواجہ سراؤں کا تقدس کا پامال ہو ،حکومت سے مطالبہ ہے کہ قانون میں خواجہ سراؤں کے خلاف جو نفرت انگیزی ہے اسے ختم کیا جائے ہمارے بہت سارے کیسز کو معاف کر دیا جاتا ہے،ہمیں انصاف نہیں مل پاتا جسکے لیے سرکار کو سر جوڑنے کی ضرورت ہے ۔
خواجہ سراوں کی گرو میڈم ببلی ملک کا کہنا تھا کہ 15 جنوری کو سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کراچی اور حیدرآباد میں ہونے والے الیکشن میں خواجہ سراوں کو جگہ دینا قابل تحسین ہے ، وہ کہتی ہیں آزمائے ہووں کو نہ آزماو خواجہ سراوں سے ہاتھ ملاؤ،اور اسی نعرے کے تحت کراچی کے حلقہ پی ایس 115 سے خواجہ سرا بندیا رانا نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ۔ اسی حلقہ سے ایم کیو ایم کے وسیم اختر اور جماعت اسلامی کے سیف الدین بھی امیدوار تھے ، جبکہ خواجہ سراؤں کی تنظیم کی صدر بندیا رانا نے پی ایس 115 جبکہ مظہر انجم نے پی ایس 130 کے لئے کاغذات نامزدگی حاصل کئے تھے ۔ جن کا کہنا تھا کہ اگر ایوانوں میں خواجہ سرا پہنچے تو 2 ماہ میں ملک کے حالات ٹھیک کر دیں گے۔
الیکشن میں وہ اپنے کردار سے ثابت کریں گے کہ خواجہ سرا بھی معاشرے کا ایک مفید حصہ بن سکتے ہیں:الحاج سعید نرگس
شہر ملتان سے این اے 151 کی امیدوار الحاج سعید نرگس کہتی ہیں کہ 8 فروری کو ہونے والے الیکشن میں وہ اپنے کردار سے ثابت کرینگی کہ خواجہ سرا بھی معاشرے کا ایک مفید حصہ بن سکتے ہیں نہ کہ ان پر صرف ایک مخصوص پیشے سے وابستہ ہونے کی مہر لگادی جائے ۔ نہوں نے کہا کہ کشکول پکڑ کر بھیک مانگناہی صرف ہمارا مقدر نہیں اور نہ ہی ناچ گانا کر کے دوسروں کی تفریح کا سامان کرناہی ہماری زندگی کا مقصد ہے ، الحاج سعید نرگس پاکستانی سیاست کے برجوں سے ٹکرا کر اپنی فتح کے لئے پر امید ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں جیتون گی یا ہاروں گی تو میں انہیں بس یہی کہتی ہوں کہ میری جیت یہی ہے کہ میرے کاغذات نامزدگی دوسرے عام انسانوں کی طرح منظور ہو گئے ہیں اور مجھے میری شناخت مل گئی ہے اور یہ صرف اور صرف سپریم کورٹ کے فیصلے کے باعث ہوا۔
کاش سپریم کورٹ کی طرح عوام اور باقی سیاسی لیڈرز بھی کچھ سیکھ لیں اور ہمیں اپنی پارٹی کا حصہ بنا لیں ، الحاج سعید نرگس نے حکومت سے مطالبہ بھی کیا کہ جیسے حکومت کی جانب سے بنائے گئے قانون کے تحت سیاسی پارٹیز پر خواتین کو 5 فیصد نمائندگی دینا ضروری ہے اسی طرح خواجہ سراؤں کو بھول جانا خواجہ سراؤں کے ساتھ زیادتی ہے ، انہیں 5 فیصد نہ سہی کچھ نہ کچھ تو حق ضرور دینا چاہیے ۔
نوٹ :تحریر میں پیش کیے خیالات ذاتی ہیں،ادارے کا متفق ہونا ضرور ی نہیں۔ایڈیٹر
وسیم شہزاد کا تعلق ملتان سے ہے۔ وہ گزشتہ 8 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ سیاست، ماحولیات، علاقائی و سماجی مسائل، تعلیم، کلچر، ادب ، سیاحت و آثار قدیمہ ، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقوں کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔