(24 نیوز)امریکہ اور کینیڈا کے درمیان حکومتی سطح پر لڑائی ، متنازعہ بیانات کا اثر اب کھیلوں کے میدانوں تک جا پہنچا ہے، دونوں ٹیموں کے درمیان جاری آئس ہاکی میچ میں کھلاڑی آپس میں لڑ پڑے۔
سکائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق میچ کے آغاز کے پہلے نو سیکنڈز کے دوران تین لڑائیاں ہوئیں، مونٹریال کے بیل سینٹر میں چار ملکوں کے درمیان ہونے والے ٹورنامنٹ کے مقابلوں کے آغاز سے قبل 21 ہزار شائقین کی موجودگی میں تناؤ واضح طور پر محسوس ہوا تھا۔
کینیڈا نے شائقین نے اس وقت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے شور مچایا جب امریکی کھلاڑیوں کا تعارف کرایا جا رہا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کہ ’کینیڈا کو امریکہ کی ریاست بننا چاہیے۔‘ اور اس پر ٹیرف لگانے کی دھمکیوں کے بعد سے بہت سے کینیڈینز میں غصے کے جذبات پائے جاتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے تبصرے کے بعد کینیڈا بھر میں فینز نے نیشنل ہاکی لیگ اور نیشنل باسکٹ بال کے میچز میں امریکی ترانے کے دوران شور مچایا گیا۔
بہرحال کھلاڑیوں کے ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہونے کے باوجود میچ کھیلا بھی گیا اور اختتام تک بھی پہنچا، جو کہ امریکہ کی ٹیم نے جیتا اور اس کے تین گولز کے مقابلے میں کینیڈا محض ایک ہی گول کر پایا۔اس کے ساتھ ہی امریکہ کی ٹیم ٹورنامنٹ کے فائنل بھی پہنچ گئی ہے۔
گیم کے آغاز میں صورت حال اس وقت خراب ہوتی دیکھی گئی جب امریکی کھلاڑی میتھیو ٹھیچک اور کینڈین پلیئر برینڈن ہیگل ایک دوسرے کو گھورنے کے بعد دستانے اتارتے ہوئے ایک دوسرے سے لڑ پڑے۔
اس کے بعد کچھ ہی سیکنڈز بعد میتھیو کے بھائی بریڈی ٹھیچک اور ایک اور کینیڈن کھلاڑی سیم بینیٹ ایک دوسرے کے مقابلے پر آ گئے اور ایک دوسرے پر گھونسوں کی بارش کر دی۔
اسی طرح تیسری لڑائی اس وقت ہوئی جب نیویارک رینجرز کے فارورڈ جے ٹی ملر اور مولٹن پریکو ایک دوسرے کی خبر لینے کے لیے آگے بڑھے۔
تاہم تینوں بار ریفری اور انتظامیہ نے لڑائی کو بڑھنے سے روکا اور میچ جاری رہا۔
ایلیٹ گیم سمجھی جانے والی آئس ہاکی کا ایونٹ شروع ہونے سے قبل کینیڈا کے رائل ایئر فورس بینڈ نے امریکی ترانا بجایا تو اس دوران شور مچایا گیا تھا۔ امریکی کھلاڑی شور کو ختم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
تاہم جمعرات کو فن لینڈ کو ہرانے کے بعد گول ٹینڈر کونور ہیلی بیوک کا کہنا تھا کہ انہوں نے ’شور پر کوئی توجہ نہیں دی۔دوسری جانب ایک اور امریکی کھلاڑی زیک ویرنسکی کا کہنا تھا کہ انہیں خدشہ تھا کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا۔
’اس سے قبل این ایچ ایل کے میچ میں بھی ایسی ہی صورت حال بنی تھی اور ہمیں معلوم تھا شاید کچھ ایسا ہی ہو، مگر یہ ہم کو بالکل اچھا نہیں لگا تاہم ساتھ ہی ویرنسکی کا کہنا تھا کہ اس سے امریکیوں کو حوصلہ ملا۔’ہم نے اس کو جتنا ہو سکا موٹیویشن کے طور پر استعمال کیا اور جیت کی راہ نکالی۔‘