(24 نیوز)اسلام آباد ہائیکورٹ نے پانچ سال سے لاپتہ شہری عمر عبد اللہ کی عدم بازیابی پر حکم دیتے ہوئے سابق سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ضمیر حسین، سابق سیکرٹری داخلہ عارف خان، سابق آئی جی اسلام آباد جان محمد کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹسز جاری کردیئے ہیں۔سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ہدایت کی کہ سات دن میں جواب دیں پھر نا کہنا آپ کو سنا نہیں گیا، نااہلی دکھانے پر چھ چھ ماہ جیل بھیجوں گا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے سنگل بنچ کے فیصلے پر عدم عمل درآمد کے خلاف توہین عدالت درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے موجودہ سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ اس عدالت کے فیصلہ پر عمل درآمد رپورٹ جمع کرائیں۔سابق سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری دفاع، سابق آئی جی اسلام آباد عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ سابق سیکریٹری داخلہ عارف خان نے کہا کہ 2016 اور 2017 میں سیکرٹری داخلہ تھا مجھے اس معاملے کا کچھ معلوم نہیں۔عدالت نے جوائنٹ سیکرٹری سے استفسار کیا کہ کیا آپ سیکرٹری داخلہ کو بتاتے نہیں کہ لاپتہ افراد سے متعلق کیا ہوتا ہے؟ آج ان سابق کے خلاف تو کل ان حاضر سیکرٹری داخلہ و دفاع کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔
سماعت کے موقع پر سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ضمیر حسین نے کہا کہ اگست 2016 سے 2018 تک میں سیکرٹری دفاع رہا ہوں۔عدالت نے ان سے کہا کہ اگر آپ نے ذمہ داری نہیں لینی تو پھر وزیر اعظم اسکے ذمہ دار ہوں گے، پولیس یا انٹلی جنس ایجنسیز کام نہیں کرتیں تو کیا ہوگا، کوئی دہشت گرد بھی ہے تو اس کے خلاف کارروائی کریں،عدالتوں میں پیش کریں، اس کیس کی تو ہسٹری ہے کیا ہم نے جواب نہیں دینا یہ نظام کیسا چلے گا، اگر یہ چلتا رہا تو ایک دن لوگ عدالتوں سمیت سارے نظام کو آگ لگا دیں گے، اگر ادارے قانون سے ماورا کام کریں گے تو لوگ بھی ہتھیار اٹھا لیں گے، عدالتوں سمیت سارے جواب دہ ہیں کوئی کام نہیں کرتا تو وہ اس عہدے کا اہل نہیں، پولیس فائل دیکھی آئی جی سے لیکر سب نے نااہلی دیکھائی، یہ لاپتہ شہری کی فیملی کھڑی ہے ان کو کیا کہوں ادارے ناکام ہو گئے، کیا سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ صرف عہدے انجوائے کرنے کیلئے ہوتے ہیں، پاکستان کی خدمت قانون کے مطابق ہی ہونی ہے اس سے باہر کچھ نہیں، آپ کے ڈپارٹمنٹس ہیں اگر آپ ان سے پوچھ نہیں سکتے تو کون پوچھے گا، عدالتوں کو تو بڑا برا بھلا کہا جاتا ہے ہم تو کام نہ کرنے والے ججز کے خلاف بھی کارروائی کرتے ہیں، کوئی دفاع ہو داخلہ ہو آئی جی ہو یا جج کام نہیں کرسکتا تو استعفی دیکر گھر جائے، سیکرٹری بنتے ہوئے دل خوش ہوتا ہے لیکن کام کی باری تو ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں، ایک میسج جائے گا کسی کو تو سزا ہونی ہے، کہیں سے تو کام شروع ہونا ہے، چھوٹا سا اسلام آباد ہے ہر مہینے کے چار پانچ لوگ لاپتہ ہو جاتے ہیں ان سے یہ بھی حل نہیں ہو رہا،عدالت کے فیصلوں کے ان اداروں کے سربراہان کے لیے سنگین اثرات ہیں، پاکستان کی سیکورٹی کے لیے ادارے کام کر رہے ہیں، شہید بھی انہی کے ہوتے ہیں۔سماعت کے دوران پولیس نے عدالت میں رپورٹ پیش کی کہ اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے 43 کیسز زیر التوا ہیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد کمیشن مطلوبہ رزلٹس نہیں دے سکا پانچ پانچ سال کیسز پڑے رہتے ہیں، رپورٹ میں یہی لکھا ہوا ہے کہ پولیس اور لوگوں کی موجودگی میں اس شخص کو اٹھایا گیا، یہ اختیارات کے ناجائز استعمال کی واضح مثال ہے۔عدالت نے سیکریٹری داخلہ و دفاع سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت تین فروری تک ملتوی کردی۔