(عثمان ارشد) ادب اور صحات کا معتبر نام منیر احمد قریشی المعروف منو بھائی کو دنیا سے رخصت ہوئے 5 برس بیت گئے۔ منو بھائی کے لکھے ڈرامے، کالم اور شعر آج بھی مقبول ہیں۔
منو بھائی نے اپنے کیریئر کا آغاز صحافی کی حیثیت سے کیا مگر جلد ہی انہوں نے ڈرامہ نگاری کا رُخ کیا۔ 1980ء کی دہائی میں لکھے جانے والے ان کے ڈرامہ سونا چاندی نے خوب پذیرائی حاصل کی۔ خاندانی روایت پر مبنی ڈرامہ آشیانہ اور گوادر کے قبائل کی ثقافی زندگی پر ان کا سیریل دشت بھی سنگ میل ثابت ہوا۔
منو بھائی نے بسیار نویسی کے باوجود کبھی لفظوں کی تاثیر بے ثمر نہ ہونے دی۔ وہ اچھے نثر نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے شاعر بھی تھے۔
منو بھائی کو تمغہ حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
اس کے علاوہ منو بھائی تھیلسیمیا کےمریض بچوں کی آنکھوں میں آج بھی اُمید بن کر زندہ ہیں۔ منو بھائی نے ’سندس فاؤنڈیشن‘ کے نام سے ایک ادراے کی بنیاد رکھی جہاں تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کا علاج اور مفت سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔
منو بھائی 19 جنوری 2018ء کو ادب، فکر اور تخلیق کا بہت بڑا ورثہ اور سماجی خدمات چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔