پنجاب کی سیاست میں بڑا بھونچال آکر گزر گیا، چودھری پرویز الٰہی تباہی کی صورت پنجاب پر جو نخوست کے بادل چھائے ہیں وہ اب چھٹنے والے ہیں، ہوا بتا رہی ہے کہ اب کہ اللہ کی رحمت کا ساون بخشا تو کھیتیاں لہلہائیں گی ، پھول مسکرائیں گے اور عوام کو کچھ سُکھ کا سانس آئے گا یہ خوشخبری ہے، پہلے اسی کا ذکر کر لیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد فٹ پاتھ کے نجومی شیخ رشید بارے بھی گفتگو ہوجائے گی -
آنے والے 72 گھنٹوں میں پنجاب سے پرویزی آسیب کا خاتمہ ہوجائے گا ،اہلیان پنجاب کے لیے اس سے بڑی خوشخبری اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ دورِ پرویزی جس نے پنجاب کے عوام کو ناکوں چنے چبوا دئیے ، آٹے کی لائنوں میں لگوا دیا ،ہسپتالوں میں ادویات نہ رہنے دی اور شہریوں کے پاس آٹا جس نے اربوں روپے کے ترقیاتی کاموں کے پیسے گجرات اور منڈی بہاؤالدین پہنچا دئیے، ذرائع کے مطابق جس نے اپنے کم تعلیم یافتہ پرنسپل سیکرٹری محمد خان بھٹی کو ٹرانسفر پوسٹنگ سے جیبیں بھرنے کا کام لیا جس نے ہر وہ کام کیا جس سے پنجاب کی عوام کا جینا محال ہو جس کے دور میں کرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ، کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پرویز الہیٰ کے سپوت مونس الہیٰ کے بار بار سپین جانے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ پنجاب کی لوٹ مار سے حاصل دولت کو ٹھکانے لگانے جاتے ہیں ۔
ضرور پڑھیں : عام انتخابات بھی وقت پر ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے:چوہدری شجاعت حسین
ایک احساس محرومی ہے جو پنجاب کی عوام کو ہے لیکن اس کا سب سے شدید احساس لاہور کو تھا یہ وہ شہر ہے کہ جس کی مثال پاکستان کے تمام بڑے شہروں کو دی جاتی تھی لیکن اس دورِ پرویزی میں یہ شہر ایک کھنڈر بن گیا تمام ترقیاتی کام رک گئے، جہاں جس حالت میں بزدار نے پہنچایا تھا اُس سے بھی بد تر حالت لاہور شہر کی کردی گئی کوئی سڑک کوئی گلی ایسی نہ رہی کہ جو صحیح حالت میں ہو یا اُس میں گندگی کے انبار نہ ہوں کوئی ایک ایسا منصوبہ شروع نہ کیا جاسکا جس کی مثال دی جاسکے حد تو یہ ہے کہ جب اسمبلیاں تحلیل ہوگئیں تو موصوف نے شاہدرہ اوور ہیڈ برج کا افتتاح بنا کسی پی سی ون کے منظور ہوئے کردیا اب جب بھی بنے گا تو یہ کہیں گے کہ اس کا افتتاح تو میں نے کیا تھا کیا، ایک اینٹ ایک پتھر لگا نہیں آج کے اخبار میں ہی لکھا ہے کہ لاہور کے چار میگا منصوبوں کے فنڈز گجرات اور میانوالی کو منتقل کر دئیے گئے ہیں، جتنا فنڈ اور پیسہ گجرات میں بجھوایا گیا ہے اُس سے تو اس شہر کو اب تک پیرس اور لندن کے معیار پر تیار ہوجانا چاہیے تھا لیکن پرانے منصوبوں اور ہسپتالوں پر اپنے نام کی پھٹیاں لگانے کے سوا کیا کیا گیا یہی وجہ ہے کہ کوٹلہ کے عوام نے موسی الہیٰ کی آمد پر اُن کا استقبال کچھ ایسے انداز میں کیا کہ اُنہیں وہاں سے بھاگنا پڑا ۔
یہ بھی پڑھیں : پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کا فیصلہ ہوگیا
اب شاید پنجاب کی کچھ سُنی جائے اس شہر کے مظلوم عوام کو شاید آواز مل جائے اور شاید 12 کڑور کی آبادی پر مشتمل اس صوبے اور لاہور شہر کو کچھ چین آجائے کہ نگران حکومت بننے جا رہی ہے ایک ایسی نگران حکومت جو پنجاب کو پنجاب بنانے کا عزم رکھتی ہوگی ایک ایسی حکومت جو لاہور کو پیرس تو نہیں بنائے گی کم از کم لاہور کو لاہور تو بنا دے گی، وزیر اعلیٰ کوئی بھی بنے ہمیں یقین ہے کہ وہ صوبے کے معاملات کو خوش اسلوبی سے چلائے گا لوٹ مار نہیں کرے گا ۔
اب بلاگ کے دوسرے موضوع پر بات کرلیتے جو ہے "شیخ رشید نہیں رہے" میں اسے بھی خوشخبری ہی سمجھتا ہوں ، شیخ رشید احمد کی سیاست کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا جس گیٹ نمبر چار کا کہہ کر وہ دھمکاتے تھے اور سیاسی لڈیاں ڈالتے تھےانہیں اس گیٹ سے نکال دیا گیا بقول غالب؎
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
والا معاملہ ہے اور آج صورتحال یہ ہے کہ جو شیخ رشید یہ کہا کرتے تھے کہ کل ن میں سے ش نکل جائے گی ، پاکستان میں لاشیں گرتے دیکھ رہا ہوں ، شریف خاندان اور زرداری خاندان کی سیاست دفن ہوجائے گی ، آنے والے دنوں میں عمران کو اور مقبول اور اوپر جاتا دیکھ رہا ہوں ، یہ نجومی نما سیاستدان کا بڑا شہرہ رہا اور نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ شیخ رشید ٹاک شو میں آنے کے پیسے بھی طلب کرتے تھے یہ ساری پیش گوئیاں وہ برسوں سے کر رہے ہیں اور ہر دور میں کرتے ہیں ، انہوں نے دراصل پیر مردان علی شاہ المعروف پیر پگارا کا خلا پُر کرنے کی کوشش کی لیکن ایک فٹ پاتھئیے نجومی سے آگے نہ بڑھ سکے کہ وہ جن کے بل بوتے پر اکڑتے تھے وہ اب نہیں رہے اس کا ایک ثبوت تو یہی ہے کہ موصوف جو پی ڈی ایم کی حکومت آج گئی کل گئی کا رونا رو رہے تھے آج کل گیٹ نمبر چار کی جدائی پر عدت کے دن پورے کرتے اور پھر اُس انتظار میں ہیں کہ جب وہ لکھ سکیں " وقت نے پھر سے دلہن " بنا دیا لیکن اب گیٹ نمبر چار تو کیا اُس پر بنی کھڑکی بھی نہیں کُھلے گی جس سے جھانک کر وہ آنے والے دنوں کی پیش گوئیاں کر سکیں اسی لیے موصوف کی نئی پیش گوئی ملاحظہ فرمائیں ،فرماتے ہیں " اگلے دس سال بہت اہم ہیں آر یا پار ہوجائے گا " صاف ظاہر ہے جب پیش گوئیوں کا سرچشمہ ہی سوکھ جائے تو نجومی کدھر جائے ۔
اس پیش گوئی میں البتہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے لیے ایک مایوسی کا عنصر ضرور موجود ہے جس کے مطابق اب انہیں اقتدار کے لیے مزید دس سال انتظار کرنا ہوگا اور یہ پیش گوئی کسی حد تک شیخ رشید اور انکے بھانجے سیاسی وارث شیخ راشد پر بھی پوری اترتی نظر آتی ہے ، راولپنڈی کے عوام شاید اب سُکھ کا سانس لیں گے جو اس سیاسی مافیا کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے تھے اور لال حویلی بھی اس کے اصل مالکوں کو مل جائے گی بقول ذرائع شیخ رشید نے اس حویلی کا ایک حصہ، حصہ دار سے خرید کر ساری حویلی پر قبضہ جما رکھا ہے اور اب اس حویلی کا قبضہ بھی ختم کرانے کا وقت ہوا چاہتا ہے ۔