(ویب ڈیسک )پاکستان کی معروف ٹی وی شخصیت اور رکنِ قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے پوسٹمارٹم کیلئے دائر درخواست میں بیوہ دانیہ شاہ فریق بن گئی ہیں۔منگل 19 جولائی کو عامر لیاقت حسین کے پوسٹ مارٹم سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ آج ہونے والی سماعت میں بیوہ دانیہ شاہ والدہ کے ہمراہ سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوئیں۔
تفصیلات کے مطابق سماعت کے آغاز میں دانیہ شاہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ دانیہ شاہ پوسٹ مارٹم کیس میں فریق بن گئی ہیں۔ عدالت کے روبرو دانیہ شاہ کے وکیل نے کہا کہ عامر لیاقت کی موت کی وجوہات سامنے آنا بہت ضروری ہیں۔اس موقع پر عدالت کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم فیملی کے جذبات کا معاملہ نہیں، بلکہ قانونی ضرورت ہے۔ اس دوران دانیہ کی والدہ نے کہا کہ بیوی کو حق ہے کہ وہ عامر لیاقت کی موت کی وجہ معلوم کرسکے، جس پر عدالت نے دانیہ شاہ کی والدہ کو خاموش کرا دیا۔
دوران سماعت سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ پولیس نے عامر لیاقت کی موت کی اصل وجہ نہیں لکھی۔
عامر لیاقت کے بچوں کے وکیل ضیا اعوان نے بتايا کہ پوسٹ مارٹم کے خلاف ان کے بیٹے اور بیٹی نے درخواست دائر کی ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ بے نظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم بھی نہیں کیا گیا تھا، جسٹس کوثر سلطانہ نے کہا کہ بینظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم نہیں ہوا ليکن پورے ملک کا پوسٹ مارٹم ہوگیا۔ جسٹس اقبال کلہوڑو نے ريمارکس ديئے کہ بینظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم نہ ہونے پر سب کو افسوس ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ہم سب کو سن کر فیصلہ دیں گے، عدالت کو مطمئن کریں عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم کیوں نہیں ہونا چاہئے؟۔عدالت نے فریقین کو کیس کی تیاری کے ساتھ پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 28 جولائی تک ملتوی کردی۔
کراچی سٹی کورٹ میں جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت میں ڈاکٹرعامر لیاقت حسین کے پوسٹ مارٹم کیلئے شہری کی دائر درخواست پر سماعت ہوئی تھی۔ درخواست گزار عبدالاحد کے وکیل ارسلان راجہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ عامر لیاقت کی اچانک پراسرار موت ہوئی ہے اور معروف ٹی وی ہوسٹ اور سیاست دان تھے۔
بیرسٹر ارسلان راجہ کا کہنا تھا کہ عامر لیاقت کی اچانک موت سے ان کے مداحوں میں شکوک و شبہات ہیں اور شبہ ہے کہ عامر لیاقت کو جائیداد کے تنازع پر قتل کیا گیا ہے اور ان کے پوسٹ مارٹم کیلئے خصوصی بورڈ تشکیل دیا جائے۔
قبل ازیں جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی نے گزشتہ ماہ ہونے والی سماعت میں پولیس کی درخواست پر عامر لیاقت حسین کے پوسٹ مارٹم کا حکم دیا تھا، تاہم اس حکم کے خلاف عامرلیاقت کے بیٹے احمد عامر اور بیٹی کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
عامر لیاقت کے بچوں کی جانب سے دائر درخواست کے ساتھ ایک فتویٰ بھی منسلک کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ قبر سے لاش کو نکالنا غیر شرعی ہے اور ایک تکلیف دہ عمل ہے۔
درخواست میں مؤقف پیش کیا گیا تھا کہ پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن شہید بے نظیر بھٹو کا قتل بھی ایک ہائی پروفائل کیس تھا، لیکن ورثاء کے انکار کے بعد ان کا بھی پوسٹ مارٹم نہیں ہوا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ نے جوڈیشل مجسٹریٹ کا حکم معطل کردیا تھا۔
عامر لیاقت کی موت کی وجوہات کا تعین پوسٹ مارٹم سے ہی ہوسکتا تھا، اس لئے میڈیکو لیگل آفیسرز (ایم ایل او ) کی ٹیم مردہ خانے پہنچ گئی تاہم پوسٹ مارٹم شروع ہونے سے پہلے ہی عامر لیاقت کی سابق اہلیہ بشریٰ اقبال وہاں پہنچیں اور انہوں نے پوسٹ مارٹم رکوا دیا۔ڈاکٹروں اور پولیس اہلکاروں نے بشریٰ اقبال کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ پوسٹ مارٹم قانونی طریقہ کار ہے اور موت کی وجہ معلوم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔
عامر لیاقت کی سابق اہلیہ پوسٹ مارٹم سے مسلسل انکاری رہیں اور پولیس سرجن سے ضمانت مانگی کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ کو ہر حال میں خفیہ رکھا جائے گا۔ پولیس سرجن نے بشریٰ اقبال کو ایم ایل اوز کی جانب سے یقین دہانی کرائی کہ رپورٹ افشا نہیں کی جائے گی لیکن یہ رپورٹ پولیس کو ضرور دی جائے گی، وہ پولیس حکام کی ضمانت نہیں لے سکتے۔پولیس اور ایم ایل او کی جانب سے ضمانت نہ ملنے پر بشریٰ اقبال نے عامر لیاقت کا پوسٹ مارٹم کرانے سے انکار کردیا۔
یاد رہے کہ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت 9 جون کو انتقال کرگئے تھے، ان کی تدفین عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں کی گئی، جب کہ نمازِ جنازہ ان کے صاحبزادے احمد عامر نے پڑھائی تھی۔