شہباز حکومت ڈر گئی ،پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ واپس؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)حکومت اِس وقت ہوا میں فائرنگ کر رہی ہے۔ قلاں بازیاں کھارہی ہے۔بظاہر تو ایسا محسوس ہورہا ہے بانی پی ٹی آئی پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلانے اور تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا تیر حکومت نے ہوا میں چھوڑا ہے ۔واقفانِ حال تو کہتے ہیں کہ جب عطا تارڑ نے پی ٹی آئی پر پابندی اور آرٹیکل چھ کے تحت مقدمات چلانے کا اعلان کیا تو اُس وقت ن لیگ کی اعلی قیادت کو اِس بات کا علم ہی پریس کانفرنس کے ذریعے ہوا ۔اور حکومت کی اہم اتحادی جماعت کو بھی اُسی وقت پتہ چلا۔یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی سینئر قیادت ن لیگ کے اِس فیصلے پر اظہار تعلقی کرتی رہی ۔مراد علی شاہ اور ناصر حسین سمیت پیپلزپارٹی کے دیگر رہنما یہ گلہ کرتے نظر آئے کہ اُنہیں ن لیگ نے اعتماد میں ہی نہیں لیا۔
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ اب سوال یہ ہے کہ اہم اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کو ن لیگ نے کیوں اہمیت نہیں دی۔اگر حکومت کا ارادہ تحریک انصاف پر پابندی لگانا ہے تو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ن لیگ پیپلزپارٹی کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرتی ۔لیکن ایسا تاثر اُبھرا کہ سب کچھ جلدی جلدی میں کیا جارہا ہے۔اور پھر لیگی رہنماؤں نے پیپلزپارٹی کے گلے کے جواب میں یہ صفائی پیش کی کہ اتحادیوں کے ساتھ جلد مشاورت کی جائے گی ۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ ایک طرف وزیر اطلاعات عجلت میں آکر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کےاعلان کے ساتھ ساتھ بانی پی ٹی آئی،عارف علوی اور قاسم سوری کیخلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلانے کا اعلان کرتے ہیں ۔اب یہ وہ معاملات ہیں جو قانونی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عطا تارڑ کی پوری پریس کانفرنس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کہیں دکھائی ہی نہیں دیئے ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ بھی پریس کانفرنس میں شرکت کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کے جلد کئے گئے اِس عمل کو مشکوک نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ایک طرف تحریک انصاف سوال اُٹھا رہی ہے دوسری جانب حکومت کے اتحادی بھی سوال بھری نظروں سے حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں۔اب اگر حکومت نے ٹھان لی ہے کہ وہ بانی پی ٹی آئی سمیت سابق صدر اور سابق ڈپٹی اسپیکر پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلانا چاہتی ہے تو پھر چلا کیوں نہیں رہی۔
دیر کس بات کی ہے؟اگر حکومت کے پاس اِن افراد کیخلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ اُن کیخلاف بغاوت کا مقدمہ چل سکتا ہے اور ثابت بھی ہوسکتا ہے تو پھر حکومت کو انتظار کس بات کا ہے؟آئین کے آرٹیکل چھ کیا ہے اِس پر بات کی جائے تو آرٹیکل چھ دستور توڑنے کو سنگین غداری قرار دیتا ہے۔آرٹیکل چھ کی شق ایک کے مطابق کوئی بھی شخص جو بزور طاقت یا کسی اور غیر آئینی طریقے سے آئین کو توڑے، اِس کی توہین کرے، معطل کرے یا پھر عارضی طور پر ملتوی کرے یا پھر ایسا کرنے کی کوشش یا سازش کرے تو ایسا شخص آئین سے سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔اِسی آرٹیکل کی شق نمبر دو کے مطابق جو شخص بھی آئین توڑنے کے عمل میں مدد کرے یا اس پر اُبھارے یا تعاون کرے تو وہ بھی سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔اِس آرٹیکل کی شق دو اے کے مطابق سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور کوئی اور عدالت اس سنگین غداری کے عمل کی توثیق نہیں کرے گی۔اِس آرٹیکل کی شق تین کے مطابق پارلیمنٹ قانون کے مطابق سنگین غداری کی سزا متعین کرے گی۔اب اِسی آرٹیکل چھ کے تحت حکومت پی ٹی آئی رہنماؤں کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتی ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خواجہ اصف دو سال پہلے بھی یہی باتیں کیا کرتے تھے کہ بانی پی ٹی آئی ،عارف علوی اور قاسم سوری پر بغاوت کا مقدمہ بنتا ہے اور حکومت میں آکر وہ آرٹیکل چھ کا مقدمہ بنائیں گے ۔
اب سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت میں ن لیگ برابر کی شراکت دار تھی ۔لیکن اِس کے باوجود اُس وقت غداری کا کیس کیوں نہیں بنایا گیا ۔اور اب پھر حکومت میں ہے لیکن صرف کیسز بنانے کی باتیں ہورہی ہیں اور عملی طور پر کچھ نہیں کیا جارہا۔جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ یہ صرف سیاسی بھڑکیں ہیں یا پھر اپنے مخالفین کو دباؤ لانے کا محض ایک حربہ ہے ۔ گو کہ حکومت کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ آئین کی روشنی میں کیا جائے گا۔وفاقی وزیر رانا ثنااللہ کہتے ہیں کہ حکومت آرٹیکل 17کے تحت کسی بھی پارٹی پر پابندی کے لیے ڈکلیریشن دے سکتی ہے۔
اب رانا صاحب ساتھ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ اُنہوں نے پی ٹی آئی پر پابندی کیخلاف ڈیکلیریشن ہی جمع نہیں کروائی۔ظاہر ہے ن لیگ اب اِس کی دلیل یہ دے گی کہ چونکہ اُس نے اتحادیوں سے مشاورت کرنی ہے اِس لئے ابھی ڈیکلیریشن نہیں بھیجا گیا ۔آرٹیکل 17 کی بات کی جائے تو آئین کا آرٹیکل 17 ملکی سالمیت کیلئے خطرے کی دفعہ ہے۔ آرٹیکل سترہ سیاسی جماعت بنانے کا حق دیتا ہے لیکن شرائط بھی لاگو ہیں، آرٹیکل کی شق دو کے مطابق کسی سیاسی جماعت پرفارن فنڈڈ یا قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دینے کا الزام ہو تو وفاقی کایبنہ پابندی کی منظوری دے گی۔حکومتی ڈکلیریشن کے بعد پندرہ روز کے اندر سپریم کورٹ میں ریفرنس دائرکرنا ہوگا اور معاملے پرسپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہوگا۔اب صورتحال تشویشناک ہے ۔ہماری ملکی سیاست ٹکراؤ کی جانب بڑھتی چلی جارہی ہے ۔اور ظاہر ہے اِس سے سیاسی عدم استحکام بھی بڑھے گا ۔
جس کی نشاندہی عالمی ریٹنگ ایجسنی بھی کر رہی ہے ۔معاشی درجہ بندی کے ادارے فچ نے پاکستان کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں پیش گوئی کی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان مستقبل قریب میں زیر حراست ہی رہیں گے اور پاکستان کی موجودہ مسلم لیگی حکومت 18 ماہ تک برقرار رہے گی۔فچ کے مطابق رواں مالی سال کے اختتام تک پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کی شرح کم ہوسکتی ہے اور رواں مالی سال کے اختتام تک اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے شرح سود میں کمی کی توقع ہے۔فچ نے مزید کی پیش گوئی کی کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر ساری معاشی اصلاحات کرے گی اور موجودہ حکومت ختم ہوئی پاکستان میں ٹیکنوکریٹ کی حکومت آئے گی۔اب ظاہر ہے فچ نے اپنی یہ رپورٹ پاکستان کی موجودہ سیاست کے تناظر میں ہی ترتیب دی ہے۔اگر فچ کی حکومت کی مدت پوری نہ ہونے کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوجاتی ہے تو پھر ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا۔اور پھر نئے الیکشن پر نیا تنازع کھڑا ہوجائے گا جیسا ماضی میں کھڑا ہوا۔ضرورت اِس بات کی ہے سیاسی قیادت آپس کی رنجشوں ،اناؤں اور انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرے ورنہ یہ آگ سب کچھ جلا کر راکھ کردے گی ۔دیکھئے یہ ویڈیو