(احمد منظور)بھارت میں صحافتی آزادی سنگین صورتحال کا شکار ہے، مودی کے اقتدار میں آتے ہی صحافت کو شدید نقصان پہنچا ۔
عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں صحافیوں کو مسلمانوں کے خلاف مظالم پر آواز اُٹھانے پر درجنوں مقدمات کا سامنا ہے،مودی کے تیسری بار اقتدار میں آتے ہی بھارتی صحافت کو شدید نقصان پہنچا،بھارتی غیر جانبدار صحافت اور آزاد میڈیا مودی سرکار کی انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ گئے۔عالمی میڈ یا کا کہنا ہے کہ بھارت میں صحافی برادری کو شدید ریاستی بندشوں کا سامنا ہے۔
گزشتہ ہفتے بھارت میں ایک مسلمان شخص کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ریاست اُتر پردیش نے اس واقعے کو دبانے کی کوشش کی،مسلمان شخص پر بہیمانہ تشدد کے حوالے سے لکھنے پر صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا گیا۔
اس سلسلے میں پولیس نے دو مسلمان صحافیوں، وسیم اکرم تیاگی اور ذاکر علی تیاگی پر مقدمات درج کیے کیونکہ دونوں صحافیوں نے سوشل میڈیا فورمز پر مسلمانوں کے حق میں آواز اُٹھائی تھی۔بھارتی صحافی نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت میں آزادانہ صحافت نہیں ہے، بطور صحافی ہم قتل کو قتل نہیں کہہ سکتے تو پھر اسے کیا کہیں؟صحافی سوال نہیں اٹھائے گا تو کون کرے گا یہ تو صحافت کا گلہ گھوٹنے کے برابر ہے۔
بھارتی صحافی ذاکر علی تیاگی کا کہنا ہے کہ میں کچھ عرصے سے بھارت میں مسلمانوں پر تشدد کے واقعات پر لکھ رہا ہوں، مجھے اندازہ تھا کہ ریاست میرے اوپر اس طرح کے مقدمات درج کرے گی،صحافیوں پر مقدمات درج کرنا اور ان کو ڈرانا دھمکانا مودی سرکار کا پرانا وطیرہ ہے۔طاقت کے بے دریغ استعمال سے صحافیوں کی آواز کو دبانا انٹرنیشنل قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
بھارت میں صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی کی نمائندگی کرنے والے کنال مجمودار نے کہا کہ ذاکر اور وسیم اکرم کے خلاف پولیس کا رویہ نہایت تشویشناک ہے۔2014 سے لیکر اب تک صحافی برادری بی جے پی کے ظلم کا شکار ہے اور مودی سرکار ریاستی سطح پر صحافیوں کو ہراساں کرنے میں مصروف ہے۔ہندوستانی حکومت نے اس وقت جرم کو جرم کہنے والے صحافیوں پر زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔