(24 نیوز) انسدادِ دہشت گردی عدالت اسلام آباد میں چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف دہشتگردی کی دفعات کے تحت درج 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔
انسدادِ دہشت گردی عدالت اسلام آباد کے جج راجہ جواد عباس حسن درخواستوں پر سماعت کر رہے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی اپنی لیگل ٹیم کے ہمراہ کمرہ عدالت میں موجود ہیں، سابق وزیر اعظم کے وکیل سلمان صفدر نے روسٹرم پر آتے ہی کہا کہ درخواست گزار عدالت میں موجود ہیں، تھانہ سنگجانی کا مقدمہ سب سے پرانا ہے جو 2022 میں درج ہوا، سب سے پہلے میں مقدمات کے پس منظر پر بات کرنا چاہوں گا، 5 مقدمات میں جے آئی ٹی کے سامنے شامل تفتیش ہوئے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی سے جو سوال پوچھا گیا انہوں نے جواب دیا۔ جس پر فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ ان 5 مقدمات میں تو پہلے سے ہی شاملِ تفتیش ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمام مقدمات میں شامل تفتیش ہو چکے ہیں، ہم جے آئی ٹی کے سامنے بھی پیش ہوئے، تمام سوالات کے جواب دیئے، 493 کا ریلیف غیر معمولی حالات میں غیر معمولی شخصیات کو دیا جاتا ہے، ان مقدمات میں بدنیتی شامل ہے، درخواست گزار کا کرکٹنگ ہسٹری میں بہت صاف ریکارڈ ہے، چیرمین پی ٹی آئی کی کرکٹ میں خدمات دنیا کے سامنے ہیں، پاکستان کے لیے چیرمین پی ٹی آئی نے 1992 میں ورلڈکپ بھی جیتا، پاکستان کی قوم کی سربراہی کرکٹ گراؤنڈ میں بھی کی، شوکت خانم ہسپتال بنایا، درخواست گزار فلاحی بہبود کے کاموں میں بھی بہت آگے ہیں، شوکت خانم اسپتال اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے وکیل درخواست گزار نے مزید کہا کہ درخواست گزار ملک کے 22ویں وزیر اعظم رہے ہیں، درخواست گزار کے دور میں احتساب کا سلسلہ شروع ہوا، درخواست گزار کے دور میں کرپشن کے مقدمات چلے جو اپنے اختتام کو پہنچے اور سزائیں ہوئیں، ان کے دور حکومت میں پراسیکیوشن کا غلط استعمال نہیں کیاگیا، ان کے دور حکومت میں مخالف سیاسی رہنماؤں نے ملک چھوڑنا شروع کردیا، سیاسی مخالفین پر ایک سے دو مقدمات تھے،160 نہیں، ان کو حکومت سے ہٹانے کے بعد سیاسی انتقام شروع ہوا، وزیر داخلہ، وزیراعظم اور مخالف سیاسی لیڈران کا چیرمین پی ٹی آئی کے خلاف بغض تھا۔
وکیل سلمان صفدر نے دلائل پیش کرتےہوئے مزید کہا کہ شہبازگِل کے خلاف مقدمہ درج کرکے چیرمین پی ٹی آئی کو پہلی بار نشانہ بنایاگیا، شہبازگِل کے کیس میں چیرمین پی ٹی آئی نے کسٹوڈیل ٹارچر کے خلاف آواز اٹھائی، ان ایف آئی آر کے ذریعے ہمیں دہشت گرد کے طور پر دکھایا جا رہا ہے، چئیر مین پی ٹی آئی آج بھی کیس سن رہے ہیں، اسی طرح وہ عدالتوں کا احترام کرتے آئے ہیں، درخواست گزار اور ان کے وکلاء کا رویہ انتہائی مثبت ہے، درخواست گزار کی ہمت غیر معمولی ہے، کوئی جواں سال لڑکا بھی اتنا نہیں لڑ سکتا، جب بھی مقدمہ درج ہوتا ہے وہ آپکے سامنے پیش ہوتا ہے، درخواست گزار 71 سال کے ہوچکے ہیں، ان کی عمر ان کو اس ریلیف کا حقدار بناتی ہے۔
سلمان صفدر نے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئےکہاکہ چیئرمین پی ٹی آئی عدالت سے انصاف چاہتےہیں، انسدادِ دہشت گردی عدالت صرف دہشت گردوں کے لیے مختص ہے، ان کے اسٹیمینا کو سلام پیش کرتاہوں، کوئی نوجوان ہوتاتو 150 سے زائد کیسز کو دیکھ کر رک جاتا، ہم عدالت سے انصاف چاہتےہیں، ان کا رویہ عدالت کے سامنے واضح ہے، ان کے خلاف درج کیسز کی مزید انکوائری تک بھی جائیں گے، غلام حسین کیس کے بعد باتوں کو توڑ مروڑ کے کیسز درج کیے گئے، ہائیکورٹ نے کہا ایسا کیس نہ کریں جس سے عوام کا پولیس اور عدلیہ پر اعتماد کم ہوجائے، ان کے خلاف ہر ماہ نئے مقدمات درج ہوتے رہے، سیاسی انتقام لیاجارہا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دہشتگردی کی دفعہ ہٹانے کا حکم دیا لیکن درخواست گزار کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔
درخواست گزار کے وکیل نے اپنے موکل کی تعریفیں اور دلائل کی بارسات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں صرف حکومتی وکیل موجود ہیں، مقدمات درج کروانے والے موجود نہیں، ان تمام مقدمات میں اگریوڈ (aggrieved) حکومت ہی ہے، عدالت کا وقت بچائیں، بتائیں کتنے کیسز میں بے گناہ ہیں، میں ان پر دلائل نہ دوں، 71 سال کی عمر میں کیا چیرمین پی ٹی آئی نے کریمینل ریکارڈ بنوانا تھا؟ 71 سال سے قبل ایک بھی فوجداری کارروائی کا کیس چیرمین پی ٹی آئی کے خلاف نہیں، ان پر درج مقدمات کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، وزارت عظمیٰ کے بعد ہی فوجداری کارروائی کے کیسز بنائے جاتےہیں، نیب آتا ہے، کرپشن دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، مجبوراً سائفر، تقریر، بغاوت، دھمکی، دہشتگردی کے کیسز بن رہے کیونکہ اور کچھ بن نہیں رہا۔
انہوں نے مزید دلائل دیئے کہ پولیس مدعی ہے اور پولیس کسی کے کہنے پر غیرقانونی اقدامات کر رہی ہے، اسلام آباد پولیس وہ پولیس نہیں جس کو ہم جانتے تھے، اسلام آباد پولیس نے حدیں ہی پار کرلی ہیں، اسلام آباد پولیس نے حکومت کے کہنے پر چیرمین پی ٹی آئی کے خلاف کاروائی کی، درخواست گزار سوائے انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے کے علاوہ اپنے گھر سے نہیں نکلے، ان کیخلاف مقدمات تب درج ہوئے جب وہ آپ کی عدالت کے باہر کھڑے ہوئے تھے، پولیس دیکھتی تھی کہ درخواست گزار کب گھر سے باہر آتے ہیں، تب پرچہ دیں گے، درخواست گزار اگر 20، 25 بار گھر سے نکلیں ہیں تو ضمانت لینے کیلئے نکلے ہیں، 2022 سے کوشش ہے کہ درخواست گزار کو گرفتار کرلیا جائے، ایک سال میں 160 مقدمات بتا دیں کس کیخلاف درج کیے ہیں آپ نے آج تک؟
جب تک سیاسی جنگ چلتی رہے گی یہ مقدمات چلتے رہیں گے، جب یہ جنگ ختم ہوجائے گی تب یہ مقدمات بھی ختم ہوجائیں گے، جب تک ختم نہیں ہوتے تب تک ہم آپکی عدالت آئے کہ گرفتاری سے بچایا جائے، پولیس کا رؤیہ قابلِ مذمت ہے جس پر سوالیہ نشان ہے، سیاسی انتقام کے لیے استعمال ہو تو اسلام آباد پولیس کی ساکھ خراب ہوتی، میرے موکل کے اسٹیمینا کا تو پولیس کو معلوم نہیں، انصاف عدالت سے ملنا ہے، پولیس سے نہیں، چیرمین پی ٹی آئی شاملِ تفتیش ہوں، عام آدمی بھی تھانہ جاتا ہے۔
فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ وکیل صفائی کہہ رہے چیرمین پی ٹی آئی کا اسٹیمینا زیادہ ہے۔ وکیل صفائی نے استدعا کی کہ کم سے کم عدالت میں بجلی تو لے آئیں۔ جس پر جج نے ریمارکس دیئے کہ 12بجے بجلی آئے گی۔
عدالت نے سلمان صفدر سے استفسار کیا کہ شامل تفتیش کروانا اور جگہ کا تعین کروانا عدالت کا کام ہے۔ جس پر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ مخصوص حالات میں عدالت کردار ادا کر سکتی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے پنچاہیت کا ادا کرنا نہیں ہوتا جبکہ پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس معاملے پر ہم فیسیلٹیٹ کرنے کو تیار ہیں۔جس پر سلمان صفدر نے سوال کیا کہ سہولت کیسے دینے کو تیار ہیں؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ہمارے سابقہ وزیر اعظم رہے ہیں، کرکٹ کے سٹار ہیں،سٹیٹ بھی ان کی حفاظت کرنا چاہتی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے پراسیکیوٹر کو جواب دیا کہ سٹیٹ سے ہی خطرہ ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگلی پیشی پر پراسیکیوشن یہ نہ کہیں کہ اس کیس میں شامل تفتیش ہو گئے اس میں نہیں ہوئے۔ عدالت نے سلمان صفدر سے استفسار کیا کہ آپ کب شامل تفتیش ہونا چاہتے ہیں؟ جس پر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ ہم آج اسی بلڈنگ میں شامل تفتیش ہونا چاہتے ہیں۔ عدالت نے جواب میں کہا کہ اس بلڈنگ میں شامل تفتیش ہونے سے متعلق میرے پاس اختیار نہیں۔
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے سوال کیا کہ ان مقدمات کی لسٹ دے دیں کن میں شامل تفتیش ہوئے اور کن میں نہیں۔ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ درخواست گزار مجموعی طور پر 5 مقدمات میں شامل تفتیش ہوچکے ہیں۔ جس پر جج راجہ جواد عباس نے ریمارکس دیئے کہ باقی دونوں ججز نے مجھے 4 جولائی کی تاریخ بتا دی ہے، اس لیے ہم ایک دن رکھتے ہیں کیونکہ سکیورٹی انتظامات اور دیگر معاملات کرنے ہوتے ہیں۔
سلمان صفدر نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں آئے تو ہمیں اندر نہیں آنے دیا گیا، دو مزید مقدمات درج کرلیے گئے، ہمیں ضمانتوں کے بغیر ہی واپس جانا پڑا، وہ تو شکر ہے ہمارے پاس حفاظتی ضمانت تھی، یہ چاہتے تھے ہم آپ تک پہنچ نا سکیں، انصاف نا لیں سکیں، جو ضمانت لینے آتا ہے وہ حملہ کرنے نہیں آتا، اس کا رویہ مختلف ہوتا ہے، ہم نے فیصلہ کیا کہ اےٹی سی پیش نہیں ہوں گے، اسلام آباد ہائیکورٹ پیش ہونے کا فیصلہ کیا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا سیشن کورٹ کو چھوڑ کر براہ راست اسلام آباد ہائیکورٹ کیسے آسکتے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ساڑھے تین ماہ کے بعد سیشن کورٹ رجوع کرنے کا کہا۔
وکیل سلمان صفدر نے چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف مقدمات کی ایف آئی آرز پڑھنا شروع کردیں اور کہا کہ مقدمے میں ایک لائین ہے چیئرمین پی ٹی آئی کے ایما پر، اس مقدمے میں دفعہ 109 کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں، دوسرے لفظوں میں درخواست گزار موقع پر موجود نہیں تھے، اس مقدمے میں اسد عمر اور دیگر کی ضمانتیں ہو چکی ہیں، صرف گھر سے نکلنا اور آپ کی عدالت تک آنا، یا ہائیکورٹ آنا، اس کے علاوہ اور کوئی پیٹرن نہیں رہا، میں بہت سی چیزیں آتی ہیں، انہوں نے صرف ایک لفظ ایما کا استعمال کیا، درخواست گزار نے کبھی اپنے کارکنوں کو قانون کو ہاتھ میں لینے کا نہیں کہا، جو بھی سورج کی روشنی میں ہو کہہ دو خان نے کیا ہے، کوئٹہ میں کوئی قتل ہوا، انہوں نے مقدمہ چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف درج کرا دیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی روسٹرم پر آئے اور کہا کہ یہ تو جمہوریت ہی ختم کردیں گے، اگر کسی بھی پارٹی کا کوئی کارکن کچھ کرے گا، یہ سربراہ کیخلاف مقدمہ کردیں گے؟ ڈاؤننگ اسٹریٹ میں احتجاج ہوتا ہے، پرامن احتجاج میرا حق ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف تھانہ سنگجانی میں درج مقدمے میں وکیل سلمان صفدر نے دلائل مکمل کیے۔
فاضل جج نے کہا کہ 5 مقدمات میں شریک ملزمان کی ان ہی گراؤنڈز پر ضمانت کنفرم ہوئی۔ بعد ازاں چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف تھانہ رمنا میں درج مقدمے پر وکیلِ سلمان صفدر کے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ عدالت سے اجازت لے کر چیئرمین پی ٹی آئی اپنی گاڑی جوڈیشل کمپلیکس لاتے تھے، عدالتی پیشی کے علاوہ کبھی جوڈیشل کمپلیکس آئے ہی نہیں، چیئرمین پی ٹی آئی نے عدالتی پیشی پر اشتعال کیوں پھیلانا؟ مقدمے میں چیئرمین پی ٹی آئی کا کردار کیا ہے؟ کچھ ذکر نہیں۔جس پر فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ ہجوم کی بات الگ ہے لیکن ایک ملزم نے تو عدالتی پیشی پر آنا ہی ہے۔
وکیل سلمان صفدر نے استفسار کیا کہ کیمرے، بینچ، گیٹ توڑنے کا الزام ہے، چیئرمین پی ٹی آئی نے تو نہیں توڑے، مقدمات میں کوئی جواب ہی نہیں بنتا کیونکہ الزام کچھ ہے ہی نہیں، پولیس کہتی ہے چیئرمین پی ٹی آئی درکار ہیں کیونکہ مقدمے میں نامزد ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی عدالت انصاف لینے آتے اور پولیس اشتعال انگیزی کرتی، ہمارے وکلاء جو درخواست گزار کے ساتھ ہوتے ہیں وہ اتنے ہی پرامن ہوتے ہیں جتنے آج ہیں، بس ان کی کمزوری ہے کہ سیلفی بنانے سے باز نہیں آتے، میں ان کو اس سے روک نہیں سکتا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف 5 مقدمات میں سلمان صفدر کے دلائل مکمل کر لئے۔
دیگر 3 مقدمات میں سلمان صفدر نے دلائل شروع کیئے تو پراسیکیوشن کی جانب سے دلائل کی تیاری کیلئے وقت دینے کی استدعا کی گئی جس پر عدالت نے حکم دیا کہ ٹھیک ہے آپ 30 منٹ لے لیں، پونے 3 بجے اپنے دلائل دے دیں۔ سماعت میں نماز کا وقفہ ہوا اور سماعت پونے 3 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔