تحریک عدم اعتماد پرآئین کے تحت عمل ہونا چاہئے۔سپریم کورٹ ۔ سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری

Mar 19, 2022 | 14:20:PM
سپریم کورٹ نوٹس جاری
کیپشن: سپریم کورٹ فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز) تحریک عدم اعتماد کا معاملہ عدالت عظمیٰ جاپہنچا ۔ سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والی سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کردیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے عدم اعتماد کے روز تصادم کے خطرے کے پیش نظر آئینی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں وزیر اعظم، وزارت داخلہ، دفاع، آئی جی اسلام آباد، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور اسپیکر قومی اسمبلی کو فریق بنایا تھا۔سپریم کورٹ بار نے آئینی پٹیشن میں کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی کو آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر کارروائی کی ہدایت کی جائے ، حکومتی اداروں کو ارکان قومی اسمبلی کو گرفتار یا نظر بند کرنے سے روکا جائے، اسلام آباد میں ایسے عوامی اجتماع سے روکا جائے جس سے ارکان اسمبلی کے قومی اسمبلی پہنچنے میں رکاوٹ ہو۔ چیف جسٹس عمرعطاءبندیال اورجسٹس منیب اختر پر مشتمل دورکنی بنچ نے درخواست کی سماعت کی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پرآئین کے تحت عمل ہونا چاہیے اور اس میں عدالت کی کوئی دلچسپی نہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ درخواست گزار کی استدعا سیاسی تناظر میں ہے، عدالت نے ملک کے سیاسی تناظر کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے اور قانون پر عملدرآمد ہونا چاہیے، معلوم ہوا کہ آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے حکومت بھی سپریم کورٹ آ رہی ہے، سپریم کورٹ بار لا اینڈ آرڈر کے حوالے سے خدشات رکھتی ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ عدم اعتماد کا عمل آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ کچھ حکومتی ممبران سندھ ہاوس میں تھے، جس نے سیاسی ماحول کو گرما دیا، اچانک سیاسی درجہ حرارت بڑھا اور یہ واقعہ ہوا ، عوام پر امن احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم اپوزیشن جماعتوں کو کہیں گے کہ وہ بھی قانون کے مطابق عمل کریں۔ بعد ازاں عدالت نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر پیپلزپارٹی، (ن) لیگ ، پی ٹی آئی اور جے یو آئی (ف) کو نوٹس جاری کردیا۔دریں اثنا سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے دفتر سے جاری بیان میں واضح کیا گیا کہ چیف جسٹس کی جانب سے کوئی از خود نوٹس نہیں لیا گیا۔سپریم کورٹ نے درخواست پر سماعت پیر دن ایک بجے تک ملتوی کردی۔
یہ بھی پڑھیں:عدم اعتماد ناکام ہونے پر اپوزیشن کا ’’پلان بی‘‘ کیا ہو گا؟ اہم خبر