شہنشاہِ جذبات محمد علی: مداحوں سے بچھڑے 19 برس بیت گئے

1962ءمیں چراغ جلتا رہاپہلی فلم تھی ،مجموعی طورپر297فلموں میں کام کیا، 94میں ہیرو آئے

Mar 19, 2025 | 12:26:PM
شہنشاہِ جذبات محمد علی: مداحوں سے بچھڑے 19 برس بیت گئے
کیپشن: فائل فوٹو
سورس: گوگل
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ایم وقار) شہنشاہِ جذبات محمد علی کو مداحوں سے بچھڑے 19 برس بیت گئے۔

19اپریل1931ءکو بھارت کے شہر رام پورکے ایک سید گھرانے میں پیدا ہونے والے محمد علی کے والد سید مرشد علی بڑے عالم دین تھے جو انگریزی تعلیم کو اچھا نہیں سمجھتے تھے یہی وجہ تھی کہ محمد علی 14سال تک سکول کی بجائے مدرسے میں اردو ‘عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔

محمد علی اپنے خاندان کے ساتھ1943میں ہجرت کر کے ملتان آگئےجہاں ان کے والد کو ملتان کی گڑ منڈی کی ایک مسجد میں خطیب کی جگہ مل گئی وہاں وہ اپنے والد کےساتھ بارہ برس تک قیام پذیر رہے،ان کے والد نے انہیں 1949ءمیں ملتان کے اسلامیہ ہائی اسکول میں ساتویں جماعت میں داخل کرادیا۔

ان کے خاندان کے زیادہ تر لوگ حیدرآبادسندھ میں رہتے تھے اس لئے1955ءمیں وہ اپنے گھروالوں کے ہمراہ حیدرآبادشفٹ ہو گئے ۔محمد علی نے سٹی کالج حیدرآباد سے انٹر کیا،ان کے بڑے بھائی ارشاد علی ریڈیو پاکستان حیدرآباد میں بطور ڈرامہ آرٹسٹ کام کر رہے تھے انہوں نے وہاں کے ڈائریکٹرسے محمد علی کا تعارف کروایااور یہیں سے ان کے کیریئر کی ابتدا ہوئی ،وہ وہاں بطور صدا کار کام کرنے لگے۔

 اس وقت ایک ڈرامے کی صدا کاری کے دس روپے ملا کرتے تھے،بعد میں ریڈیو پاکستان بہاولپور چلے گئے،محمد علی کی زوردار تاثرات سے بھرپور آواز نے ان کو ترقی کی منزلیں طے کرنے میں بڑی مدد کی،ان کی جاندار صدا کاری سے متاثر ہو کرریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹرجنرل ریڈ اے بخاری نے انہیں اپنے پاس کراچی بُلا لیااور ان کے فن کونکھارنے میں بڑی مدد کی،انہیں مائیکروفون کے آگے کھڑے ہو کرمکالموں کی ادائیگی اورآواز کے اُتارچڑھاﺅ کے سارے گر سکھائے۔

محمد علی کے فلمی کیریئرکی ابتدا 1962ءمیں فلم ”چراغ جلتا رہا“سے ہوئی،ان کے ساتھ زیبا کی بھی یہ پہلی فلم تھی،اس فلم کا افتتاح کراچی کے نشاط سینما میں مادرملت محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے ہاتھوں سے کیا تھا،اگرچہ یہ فلم زیادہ کامیاب نہ ہو سکی مگر محمد علی کی اداکاری اورمکالموں کی ادائیگی نے دوسرے فلم سازوں اورہدایت کاروں کواپنی طرف ضرورمتوجہ کرلیا،اس کے بعدانہوں نے اپنی ابتدائی پانچ فلموں میں بطور ولن کام کیا۔

ہدایت کار منوررشید کی فلم ”بہادر“بطور ہیروان کی پہلی فلم تھی،اس کے بعد 1963ءمیں ریلیز ہونے والی فلم ”شرارت“ ان کی پہچان بنی جس کے بعد محمدعلی لاہورچلے آئے ۔

لاہورآنے کے بعدانہوں نے فلم”کندن“میں کام کیالیکن انہیں اصل شُہرت فلم ”خاموش رہو“سے ملی،انہوں نے 297فلموں میں کام کیا جن میں 94فلموں میں بطور ہیرو آئے۔

یوں تو انہوں نے وقت کی تمام معروف اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا جن میں شمیم آرا‘شبنم‘زیبا‘دیبا ‘ اورنشوشامل ہیں مگر سب سے زیادہ فلموں میں ان کی ہیروئن زیبا تھیں جو بعد میں ان کی شریک حیات بنیں دونوں نے اکٹھے75 فلموں میں کام کیا۔

فلموں میں ان پر فلمائے جانے والے گانوں میں سب سے زیادہ مہدی حسن کی آوازمیں گانے تھے۔ان کی مشہور فلموں میں کنیز‘آگ کا دریا‘صاعقہ ‘ انسان اور آدمی‘ بہن بھائی‘ وحشی‘ آس ‘ حیدر علی‘ آئینہ اور صورت شامل ہیں۔

محمد علی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے یہاں کے تمام ایکٹروں سے زیادہ ایوارڈ حاصل کئے۔پرائیڈ آف پرفارمنس انہیں جنرل ضیاءالحق کے ہاتھوں1984 ءمیں ملا تھا،پاکستان کا دوسرا بڑا سول ایوارڈتمغہ امتیاز بھی انہیں ملا تھا،جن فلموں پردس بارانہوں نے بیسٹ ایکٹرکے نگار ایوارڈ حاصل کئے ان میں کنیز1965‘آگ کا دریا1966‘صاعقہ 1968‘انسان اور آدمی1970‘وحشی 1971‘آس 1973‘آئینہ اور صورت1974‘حیدرعلی 1974اور دوریاں کا سپر پرفارمنس ایوارڈ 1984 شامل ہے۔ اس کے علاوہ نگارلائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ 1998 ،پاکستان بیسٹ پرسنیلٹی ایوارڈ 1997‘انڈیا سے نوشاد ایوارڈ‘دبئی سے الناصر ایوارڈکے علاوہ ان گنت ایوارڈبھی ان کے حصے میں آئے ہیں۔

محمد علی کی1995ءمیں ریلیز ہونےوالی آخری فلم ”دمادم مست قلندر“تھی۔

محمدعلی اورزیبا29ستمبر1966ءکو شادی کے بندھن میں بندھے تھے،ان کی ازدواجی زندگی بڑی خوشگوار گزری،فلمی دنیا میں دونوں علی زیب کے نام سے جانے جاتے تھے اوراس جوڑی کوعزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا،اللہ تعالیٰ نے انہیں عزت ‘شہرت اور دولت جیسی ہر چیز سے نواز ا مگراولاد جیسی نعمت سے محروم رہے بعد میں انہوں نے زیباکے بطن سے پیدا ہونے والی سدھیر کی بیٹی کو گو د لے لیا اور سگی بیٹی کی طرح پالا ۔

علی زیب کے نام سے انہوں نے پروڈکشن ہاؤس بھی قائم کیا جس کے بینر تلے فلمیں بھی پروڈیوس کیں،ان کی اپنی فلموں میں ”جیسے جانتے نہیں“باکس آفس پر ہٹ ہوئی تھی جس میں احمد رشدی کا گانا” لئے آنکھوں میں غرورایسے بیٹھے ہیں حضورجیسے جانتے نہیں“بڑا مقبول ہوا تھا۔

 ان کے نہ صرف اپنے ملک کے سربراہان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رہے بلکہ بہت سے دوسرے اسلامی ملکوں کے سربراہان سے بھی ان کے ذاتی مراسم تھے،ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے،1974ءمیں لاہور میں ہونےوالی اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کےلئے آئے ہوئے سلطان قابوس اور شاہ فیصل شہید کو علی زیب ہاؤس میں ٹھہرایا گیا تھاکیونکہ ُان دنوں آج کی طرح لاہور میں اتنے بڑے بڑے ہوٹل نہیں تھے اور محمد علی کی رہائش گاہ علی زیب ہاؤس کا شمار شہر کی عالیشان رہائش گاہوں میں ہوتا تھا،سعودی شاہی خاندان سے ان کے بہت زیادہ مراسم بن گئے تھے یہاں تک کہ جب ان کا انتقال ہوا تو سعودی حکومت نے پیغام بھجوایا تھا کہ ان کے جسدِ خاکی کوجنت البقیع میں دفن کردیاجائے۔

عمان کے سلطان قابوس نے انہیں غیر سرکاری سفیر کی حیثیت سے تعریفی شیلڈ دی تھی،ایران کے شہنشاہ نے پہلوی ایوارڈ دیا تھا،اسی دوران فلسطین کے یاسرعرفات کی خواہش پر بھی محمد علی کو اُن سے بھی ملایا گیا تھا،بھٹو کے بعد جنرل ضیاءالحق سے بھی ان کے قریبی تعلقات ہو گئے تھے،1983ءکوضیاءالحق بھارت کے دورے پر گئے تو ان کے وفد میں محمد علی کو خصوصی طور پر شامل کیا گیا تھا ،وہاں اندرا گاندھی سے ملاقات ہوئی تو اس نے ضیاءالحق سے کہاکہ محمد علی کو بھارتی فلموں میں بھی کام کرنا چاہئے۔

پاکستان واپس آنے کے بعد ضیاءالحق نے محمد علی کو اپنے پاس بُلا کر اندرا گاندھی کی خواہش کے مطابق انہیں انڈین فلموں میں کام کرنے پرآمادہ کیا جن کے کہنے پر وہ اپنی بیگم زیباکو ساتھ لے کر ہندوستان گئے اور منوج کمار کی فلم ” کلرک“میں کام کیا، نوازشریف سے بھی ان کے اچھے تعلقات رہے،وہ نواز شریف کے ایڈوائزر بھی رہے ۔

یہ بھی پڑھیں:رمضان نشریات کی وجہ سے لوگ عبادات کو بھول گئے، بشریٰ انصاری

علی زیب کی جوڑی فلاحی کاموں میں بھی ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی، ضرورت مندوں کی ہر ممکن مدد کرتے تھے،علی زیب فاؤنڈیشن کے تحت تھیلیسیمیامیں مبتلا بچوں کا علاج اور کفالت کی جاتی تھی جس کے تمام اخراجات وہ اپنے وسائل سے پورے کرتے تھے ۔

محمدعلی 19 مارچ 2006ءکو دل کا دورہ پڑنے سے راہی ملک عدم ہوگئے تھے اوروہ میاں میرقبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔