(امانت گشکوری) وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ سنا دیا کہ خواجہ سرا اپنی جنس تبدیل نہیں کرا سکتے۔
خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018ءکیخلاف درخواست پر قائم مقام چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین نے فیصلہ سنادیا۔
وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ خواجہ سرا خود کو مرد یا عورت نہیں کہلوا سکتے۔
وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ حکومت خواجہ سراؤں کو تمام حقوق دینے کی پابند ہے، اسلام خواجہ سراؤں کو تمام انسانی حقوق فراہم کرتا ہے۔
عدالت نے مزیس کہا کہ ٹرانسجینڈر ایکٹ 2018ء کے سیکشن 2 اور 3 اسلامی تعلیمات کخلاف ہیں، جسمانی خدوخال کے مطابق کسی کو مرد نہیں کہا جاسکتا، ایکٹ کے سیکشن 7 کو بھی غیر اسلامی قرار دے دیا گیا کیونکہ سیکشن 7 کے تحت مرضی سے جنس کا تعین کرکے کوئی بھی وراثت میں مرضی کا حصہ لے سکتا تھا جبکہ وراثت میں حصہ جنس کے مطابق ہی مل سکتا ہے۔
وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ مرد یا عورت خود کو بائیولاجیکل جنس سے ہٹ کر خواجہ سرا کہے تو یہ غیرشرعی ہوگا اسکے علاوہ شریعت کورٹ نے ٹرانسجینڈر ایکٹ کی سیکشن 2F بھی خلاف شریعت قرار دے دیا۔
خیال رہے کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام سمیت مختلف تنظیموں کی جانب سے اس ایکٹ کو غیرشرعی قرار دیتے ہوئے شرعی عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا۔
اس ایکٹ کیخلاف جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد اور صحافی اوریا مقبول جان سمیت دیگر نے درخواستیں دائر کی تھیں۔