(احتشام کیانی) اسلام آباد ہائیکورٹ میں عدالتی حکم کے باوجود پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری کی گرفتاری کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بات کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ان کیسز میں عدالت کے کنسرن ہیں، حکومت نے کوشش کی ہے کہ عدالتی رٹ کو شکست دی جائے، ہم کہتے ہیں کہ سولائزڈ ملک ہے، کورٹ کے آرڈرز کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کو سولائزڈ ثابت نہیں کرتا، آئینی عدالتوں کیخلاف ایک کمپین لانچ کی گئی، یہ عدالتیں قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کیلئے موجود ہیں، جو کمپین چلا رہے ہیں کل وہی انہی عدالتوں سے اسی طرح ریلیف لے رہے تھے، ہم ججز ٹاک شوز نہیں کر سکتے وہاں بیٹھ کر دفاع نہیں کر سکتے، ہماری طاقت بار ہے، اٹارنی جنرل صاحب! آپ ہیں، عدالت کی رٹ اس ملک کا وقار ہے، جو کچھ پُرتشدد واقعات ہوئے ان کو کوئی جسٹیفائی نہیں کر رہا، ملک کیلئے اعلیٰ اتھارٹی کے سامنے یہ معاملہ رکھیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ملک آئین کے تحت ہی چلنا ہے، عدالتیں اور تمام آئینی اداروں نے آئین کے اندر رہ کر ہی کام کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ظل شاہ قتل کیس اورجلاؤگھیراؤکامعاملہ، عمران خان کو انسدادِ دہشتگردی عدالت سے بڑا ریلیف مل گیا
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بات کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے اور کہا کہ یہ وقت گزر جائے گا لیکن اس کے اثرات ملک پر برقرار رہیں گے، ہم یہاں صرف سروس کیلئے ہیں۔
اس موقع پر روسٹرم پر کھڑے وکلاء نے بیک وقت کہا کہ ہم عدالت کے ساتھ ہیں۔
عدالت نے کہا کہ پنجاب پولیس ڈائریکٹ اسلام آباد سے کسی کو گرفتار نہیں کرسکتی، بادی النظر میں اسلام آباد پولیس خود کو اس سے الگ نہیں کرسکتی، کیا پنجاب پولیس کو اسلام آباد نے بلایا تھا کہ عدالت نے گرفتاری سے روکا ہوا ہے؟
توہینِ عدالت کے کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی اسلام آباد کو نوٹس جاری کر دیا اور ان سے پیر تک جواب طلب کرلیا۔
عدالت نے سوال کیا کہ عدالتی حکم کے باوجود شیریں مزاری کو پنجاب پولیس کے سپرد کیوں کیا گیا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔