(24 نیوز)سیاسی حالات بتا رہے ہیں کہ حکومت اِس وقت گرم پانیوں میں ہے،ایک طرف حکومت کو اُس کی سب سے بڑی جماعت پیپلزپارٹی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے تو وہیں طاقتور حلقے تحریک انصاف کیخلاف مؤثر بیانیہ نہ بنانے پر حکومت سے مایوس نظر آرہے ہیں۔دوسری جانب تحریک انصاف بھی حکومت کیخلاف آخری کال کی صورت محاذ سجانے کی تیاریوں میں ہے ۔یعنی حکومت کیلئے مشکلات کے پہاڑ کھڑے ہورہے ہیں ۔حکومت کی پالیسیوں سے پیپلزپارٹی خوش نظر نہیں آرہی اور حال ہی میں بلاول بھٹو نے حکومت کیخلاف شکایتوں کے انبار بھی لگائے تھے ۔اور اب یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اسحاق ڈار کو پیپلز پارٹی کی قیادت سے رابطہ کرنے اور اتحادی جماعت کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اب وزیر اعظم کا بلاول بھٹو کو منانے کی ہدایت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اچھے سے جانتی ہے کہ اگر پیپلزپارٹی حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہوگئی تو حکومت کا دھڑن تختہ ہوجائے گا۔گو کہ اِس حوالے سے ایک سوچ یہ بھی پائی جاتی ہے کہ پیپلزپارٹی حکومت سے علیحدہ نہیں ہوگی،سینئر صھافی انصار عباسی کی رائے میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ن لیگی حکومت کیخلاف شکایات کے باوجود صدر آصف علی زرداری موجودہ نظام کے استحکام کے بڑے ضامنوں میں سے ایک ہیں۔ بلاول بھٹو کا ن لیگ اور شہباز حکومت کے کیخلاف حالیہ اظہار ناراضی اگرچہ شہ سرخیوں کا حصہ بنی لیکن یہ پیپلز پارٹی کی حمایت سے قائم حکومت کیلئے خطرہ نہیں۔بلاول بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے تمام سرکردہ رہنما جانتے ہیں کہ ن لیگ کیخلاف شکایات کے باوجود، پارٹی شہباز حکومت کی حمایت ختم نہیں کرے گی، حالانکہ پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ اب پیپلزپارٹی اور حکومت کے آپس کے سیاسی تعلقات کولے کر مختلف سوچ پائی جاتی ہے ۔لیکن پیپلزپارٹی کے رہنما حسن مرتضی نے ہمارے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ن لیگ کے ساتھ اتحاد کرنا ہماری مجبوری ہے ۔
اگر پیپلزپارٹی مجبوری میں حکومت کے ساتھ شامل ہے تو اِس کا مطلب صاف ہے کہ اگر حکومت پیپلزپارٹی کے تحفظات کو دور نہیں کرتی تو اُس کو بڑا اپ سیٹ ہوسکتا ہے ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کو اتحادیوں کو اکھٹے رکھنے کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ۔تو وہیں حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج پی ٹی آئی کیخلاف کاؤنٹر بیانیہ بنانا ہے ۔خاص طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ نو مئی پر حکومت کوئی مؤثر بیانیہ نہیں بنا سکی اور نہ ہی ذمہ داروں کا تعین کرکے اُنہیں قانون کے مطابق سزائیں دلوانے میں کامیاب ہوسکی ۔واقفان حال کہتے ہیں کہ حکومت کی اندرونی کمزوریوں اور اختلافات کی وجہ سے بھی مؤثر بیانیہ نہیں بنایا جاسکا ،شہباز شریف کو بھی بیانیے پر اپنی جماعت کی جانب سے سپورٹ حاصل نہیں ہے۔اُنہیں پنجاب سےسپورٹ نہیں مل رہی ،ایسا لگتا ہے کہ جیسے پنجاب اور وفاق میں دو الگ الگ جماعتیں حکومت کر رہی ہیں ، ن لیگ کی نہ اس وقت کوئی تنظیم ہے اور نہ کوئی خاطر خواہ بیانیہ، نہ شہباز شریف سیاست کےسٹیج پر چڑھنے کو تیار ہیں اور نہ مریم نواز نے آج تک لاہور یا پنجاب کے پارٹی عہدیداروں سے ایک بھی ملاقات کی ہے۔اب اِن وجوہات کی بنیاد پر حکومت مطلوبہ بیانہ بنانے میں ناکام نظر آرہی ہے جس کی وجہ طاقتور حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے۔اِس لئے یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ موجودہ نظام زیادہ دیر تک نہیں چلے گا اور اِس کی جگہ قومی حکومت یا پھر نئی جماعت جگہ لے گی جس سے ایک مؤثر بیانیہ بنانے کا کام لیا جائے گا۔اور اِسی لئے سینئر صحافی سہیل وڑائچ بھی یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ موجودہ نظام زیادہ دیر تک نہیں چلے گا۔
اب اتحادیوں کے علاوہ حکومت کو مضبوط بیانیہ بنانے کا چیلنج درپیش ہے تو ایسے میں پی ٹی آئی 24 نومبر کو فائنل کال دینے جارہی ہے ۔اگر خدانخواستہ احتجاج انتشار میں بدل جاتا ہے تو حکومت کیلئے ایک نئی مشکل تو کھڑی ہوسکتی ہے ۔بہرحال رانا ثنا اللہ تو حکومت کو خبردار کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی نے بغیر کسی ہوم ورک کے یہ احتجاج کی کال دی ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کال ان کے لیے پولیٹیکلی اور اس کے علاوہ بھی بڑی نقصان کا باعث بنے گی۔
تحریک انصاف آخری کال کو لے کر گومگو کا شکار ہے ،اور پارٹی تقسیم کا بھی شکا ر ہے،ممکنہ طور پر اِن دجوہات کی بنیاد پر تحریک انصاف کا احتجاج غیر مؤثر ہوسکتا ہے ۔گو کہ تحریک انصاف کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ یہ احتجاج غیر معینہ مدت تک کیلئے ہوگا ،لیکن ساتھ ہی تحریک انصاف کا ایک دھڑا احتجاج کی بجائے اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتا ہے ۔جبکہ شیخ وقاص اکرم اور علی محمد خان اِس امکان کو رد کر رہے ہیں۔اب تقسیم حکومت کے ساتھ تحریک انصاف میں بھی نظر آرہی ہے اور اِسی تقسیم کو دیکھتے رانا تنویر کہتے ہیں کہ پارٹی بشری بی بی کے سپرد کرنا پی ٹی آئی کی آخری سانسوں کے مترادف ہے۔مزید دیکھئے اس ویڈیو میں